شرعاً مسجد میں خرید و فروخت کرنا منع ہے، تو بیع من یزید کے جواز کے استدلال میں جو حدیث پیش کی جاتی ہے، تو وہ بیع کہاں ہوئی تھی؟ مسجد میں ہوئی تھی یا مسجد کے باہر ہوئی تھی؟
واضح رہے کہ مسجد میں سامان لاکر خریدوفروخت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ زبانی طور پر خرید وفروخت کی گنجائش ہے ۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بیع کہا ں ہوئی اس کی صراحت نہیں ہے ، اگر مسجد میں ہوئی ہے تو یہ خاص واقعہ ہو گا ، البتہ عمومی طور پر مسجد میں خرید وفروخت کی گنجائش نہیں ہے ۔
فتح القديرمیں ہے :
"(ولا بأس بأن يبيع ويبتاع في المسجد من غير أن يحضر السلعة)؛ لأنه قد يحتاج إلى ذلك بأن لايجد من يقوم بحاجته إلا أنهم قالوا: يكره إحضار السلعة للبيع والشراء. لأن المسجد محرر عن حقوق العباد، وفيه شغله بها، و يكره لغير المعتكف البيع والشراء فيه؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «جنبوا مساجدكم صبيانكم إلى أن قال: وبيعكم وشراءكم»."
(کتاب الصوم ،باب الاعتکاف،2/ 397،شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100156
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن