بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع میں شرط کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں قیمت سے کٹوتی کرنے کا حکم


سوال

ہمارا ادارہ  عرصہ آٹھ سال سے عید الاضحی کے موقع پر اجتماعی قربانی کا انتظام کرتا ہے، گائے کی خریداری کے لیے باقاعدہ پہلے ٹھیکے دار سے تحریری معاہدہ کیا جاتا ہے،  جن شرائط کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے،  اس کی کاپی بھی سوال کے ساتھ منسلک ہے، اس معاہدہ کی بھی شق  وار شرعی راہ نمائی کر کے مشکور فرمائیں ۔

مسئلہ یہ ہے کہ ٹھیکے دار نے چند شقوں کی خلاف ورزی کی ہے ، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

  1.  شق نمبر 8 پر مکمل عمل نہیں ہوا ،وہ  اس طرح کہ  کل 130 جانوروں میں سے نوّے گائے میں فی حصہ   14 کلو سے کم گوشت آیا،  کٹوتی کی رقم پانچ لاکھ روپے بنتی ہے،  جس کا باقاعدہ حساب کر کے معاہدے کے مطابق ٹھیکدار سے کٹوتی کی گئی ہے۔
  2. اس نے معاہدے کی شق نمبر 7 کی بھی اس طرح خلاف ورزی کی کہ  سارے جانور دیسی پنجاب کے ہونا طے  تھے، لیکن 25 جانور اندرون سندھ کے  تھے۔
  3.   اس معاہدے کی شق نمبر 7 کی بھی اس طرح خلاف ورزی ہوئی کہ  معاہدے میں طے ہوا تھا کہ  تمام جانور دو اور چار دانت کے ہوں گے،  جب کہ 40 جانور 6  /8 دانت کے تھے۔

ان تینوں شقوں میں معاہدے کی خلاف ورزی پر ادارے نے صرف ایک شق نمبر آٹھ  کی خلاف ورزی پر چودہ کلو سے فی حصہ کمی پر حساب کرکے  کٹوتی کی ہے،  جس کی رقم پانچ لاکھ روپے بنتی ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ :

  1. کیا اس طرح کٹوتی کرنا اور معاہدے میں یہ شق  شامل کرنا درست ہے؟
  2. کیا یہ رقم ادارے کے استعمال میں لا سکتے ہیں؟
  3. اگر درست ہے تو کٹوتی کا کیا کرنا چاہیے، کیا حصہ داروں کو ان کی کمی کے حساب سے رقم واپس کریں؟

واضح رہے کہ ہمارے درمیان بیع کا معاملہ عید کے دن صبح ہوتا ہے۔

جواب

1،2،3صورتِ مسئولہ میں منتظمین ِمدرسہ کا ٹھیکے دار کے ساتھ مذکورہ معاہدہ کے مطابق خرید و فروخت  کا معاملہ کرنا شرعاً درست نہیں تھا ؛ کیوں کہ معاہدہ میں یہ شرط لگائی گئی ہے کہ"فی حصہ گوشت کا وزن پندرہ کلو ہوگا، کم ہونے کی صورت میں فی کلو کے حساب سے کٹوتی کی جائے گی"،اس شرط  کی وجہ سے بیع فاسد ہو گئی تھی ،  اس کو فسخ کرنا شرعاً لازم تھا، لیکن اب جب جانور ذبح کردیے گئے ہیں اور مبیع کی واپسی نا ممکن ہو گئی ہےتو ایسی صورت میں ثمن(یعنی وہ قیمت جو باہمی رضامندی سے طے ہوئی تھی)کے لازم ہونے کے بجائے اس وقت مارکیٹ ویلیو کے حساب سے جانوروں کی جو    قیمت تھی، وہ لازم ہے؛لہٰذا اگر ادا شدہ رقم قیمت کے برابر ہو تو صحیح اور اگر اداشدہ رقم زیادہ ہو اور قیمت کم ہو تو زائد رقم واپس لے کر شرکاء کو واپس کرنا لازم ہوگا، مدرسہ کے استعمال میں لانا جائز نہیں اور اگر کم ہو تو پھر شرکاء سے رقم لے کر ٹھیکے دار کو دینی ہوگی۔

معاہدے کی شق نمبر نو میں یہ وضاحت کردی جائے کہ عید کے دن سے پہلے تک تمام جانور ٹھیکے دار کی ملکیت ہوں گے، بیع کا معاملہ عید کے دن ہوگاتو ایسی صورت میں بیع سے قبل تک خدمت و حفاظت کی تمام تر ذمہ داریاں ٹھیکے دار پر ہوں گی ۔معاہدہ کی بقیہ  شقیں  درست ہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) ‌شرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه أو أرضا على أن يزرعها سنة أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه أسبوعا أو على أن يقرضه المشتري قرضا أو على أن يهب له هبة أو يزوج ابنته منه أو يبيع منه كذا ونحو ذلك أو اشترى ثوبا على أن يخيطه البائع قميصا أو حنطة على أن يطحنها أو ثمرة على أن يجذها أو ربطة قائمة على الأرض على أن يجذها أو شيئا له حمل ومؤنة على أن يحمله البائع إلى منزله ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الربا۔"

(کتاب البیوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع: 5 / 169، ط:دار الكتب العلمية)

فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي میں ہے:

"وكل ‌شرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده ... فأما ما فيه منفعة لأحد المتعاقدين أو المعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق، كأن اشترى حنطة على أن يطحنها البائع أو يتركها في داره شهرا أو ثوبا على أن يخيطه فالبيع فاسد."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد: 6 / 443، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

الدر المختار شرح تنوير الأبصار  میں ہے:

"(وإذا قبض المشتري المبيع برضا) عبر ابن الكمال بإذن (بائعه صريحا إو دلالة) بأن قبضه في مجلس العقد بحضرته (في البيع الفاسد) وبه خرج الباطل وتقدم مع حكمه، وحينئذ فلا حاجة لقول الهداية والعناية: وكل من عوضيه مال، كما أفاده ابن الكمال لكن أجاب سعدي بأنه لما كان الفاسد يعم الباطل مجازا كما مر حقق إخراجه بذلك، فتنبه (ولم ينهه) البائع عنه، ولم يكن فيه خيار شرط (ملكه) ... (بمثله إن مثليا وإلا ‌فبقيمته) يعني إن بعد هلاكه أو تعذر رده (يوم قبضه) لان به يدخل في ضمانه فلا تعتبر زيادة قيمته كالمغضوب (والقول فيها للمشتري) لانكاره الزيادة (و) يجب (على كل واحد منهما فسخه قبل القبض) ويكون امتناعا عنه۔"

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد: 413، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ   میں ہے:

"لو اشترى بطيخة على أنها حلوة أو زيتا أو سمسما على أن فيه كذا منا من الدهن أو أرزا خاما على أنه يخرج الأرز الأبيض من المائة كذا منا، أو شاة أو ثورا حيا على أن فيه كذا منا من اللحم فسد البيع في الكل لتعذر معرفته قبل العمل كذا في القنية۔"

(کتاب البیوع، الباب العاشر في الشروط التي تفسد البيع والتي لا تفسده: 3 / 137، المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

العقود الدرية فی تنقيح الفتاوی الحامدية میں ہے:

"ولو اشترى عبدا على أنه»خباز أو كاتب فكان بخلافه أخذه بكل الثمن أو ترك؛ لأن هذا وصف مرغوب فيه مستحق بالشرط في العقد ثم فواته يوجب التخيير؛ لأنه لم يرض به دونه بخلاف ما لو باع شاة على أنها حامل أو تحلب كذا وكذا رطلا حيث يفسد البيع لا؛ لأنه من قبيل الوصف وإنما هو من قبيل الشرط الفاسد إذ لا يعرف ذلك حقيقة؛ لأنه يحتمل أنه لبن أو انتفاخ حتى لو اشترط أنها حلوب أو لبون لا يفسد؛ لأنه وصف ولو قال يخبز كذا صاعا أو كذا قدرا يفسد لما ذكرنا۔"

(باب الخيارات: 1 / 260، ط: دار المعرفة)

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"ولو كان المبيع ثوبا فقطعه المشتري وخاطه قميصا أو بطنه وحشاه بطل حق الفسخ وتقرر عليه قيمته يوم القبض، والأصل في هذا أن المشتري إذا أحدث في المبيع صنعا لو أحدثه الغاصب في المغصوب لا يقطع حق المالك؛ يبطل حق الفسخ ويتقرر حقه في ضمان القيمة أو المثل، كما إذا كان المبيع قطنا فغزله، أو غزلا فنسجه، أو حنطة فطحنها، أو سمسما أو عنبا فعصره، أو ساحة فبنى عليها، أو شاة فذبحها وشواها أو طبخها ونحو ذلك، وإنما كان كذلك؛ لأن القبض ‌في ‌البيع ‌الفاسد كقبض الغصب ألا ترى أن كل واحد منهما مضمون الرد حال قيامه، ومضمون القيمة أو المثل حال هلاكه؟ ، فكل ما يوجب انقطاع حق المالك هناك يوجب انقطاع حق البيع للبائع ههنا۔"

(كتاب البيوع، فصل في حكم البيع، خيار الرؤية: 5 / 303، ط: دار الكتب العلمية)

الاختيار لتعليل المختار  میں ہے:

"باب البيع الفاسد وهو يفيد الملك بالقبض، ولكل واحد من المتعاقدين فسخه، ويشترط قيام المبيع حالة الفسخ، فإن باعه أو أعتقه أو وهبه بعد القبض جاز«وعليه قيمته يوم قبضه إن كان من ذوات القيم، أو مثله إن كان مثليا۔"

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد وأحكامه: 2 / 23، ط: مطبعة الحلبي  القاهرة)

 فقط و اللہ أعلم


فتوی نمبر : 144305100487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں