بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استصناع میں اپنے فائدہ کی شرط لگانا


سوال

میرا ایک ساتھی ہے ،اس نے مجھے دو لاکھ  روپے دیے کہ آپ مجھے سیڑھیاں بنا کر دو ،میں آگے بیچوں گا ،اب زبانی معاہدہ یہ طے پایا :

1) میرا جو ہول سیل ریٹ ہوگا میں اسے  فی فٹ چالیس روپے کم  دوں گا۔

2)مارکیٹ میں جو میرا ہول سیل ریٹ چل رہا ہوگا وہ ساتھی اس سے کم پر  سیل نہیں  کرے گا۔

3)اگر اس دوران اس ساتھی کو  پیسے  چاہییں تو کم از کم چار مہینے کا وقت در کار ہوگا ۔

4)جس مارکیٹ میں وہ سیل  کرے گا، میں اس  مارکیٹ میں  سیل نہیں  کروں گا۔اسی طرح وہ بھی پاپند ہے ۔

اب اس ساتھی  نےوہ پیسے مجھ سے  اچانک کسی ایمر جنسی کی بنا پر  لے لیے،  اب اس کی جگہ مجھ سے ایک اور ساتھی وہی سیڑھیاں خریدنا چاہتا ہے ،لیکن مجھے یہ کہتا ہے کہ مارکیٹ جانے کا  میرے پاس ٹائم نہیں ہے ، آپ خود ہی میرے وکیل بن کر  میرے مال کو سیل کردو اور فی فٹ چالیس روپے مجھے دیدو، میں نے یہ کیا  کہ خالہ زاد بھائی جو میرے پاس کام  کرتا ہے  اس کو مذکورہ ساتھی کی رضامندی سے اس کا وکیل بنادیا ۔

اب سوال یہ ہے کہ پہلے شخص کے ساتھ معاملہ کرنا کیسا ہے اور دوسرے شخص کے ساتھ معاملہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  استصناع بھی چوں کہ انتہاءً بیع ہے اور بیع میں ہر وه شرط جس ميں بائع ،مشتری میں سے کسی ایک کو فائدہ ہو رہا ہو وہ شرط فاسد ہے اور  شرط فاسد بیع کو فاسد کر دیتی ہے ،بیع فاسد کا حکم یہ ہے کہ ایسی بیع کو ختم کرنا  ہے،پھر اگر عاقدین اس سودے پر راضی ہوں تو نئے سرے سے صحیح طریقے سے بیع کرنا لازم ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں پہلے معاملہ کی دوسری اور چوتھی  شرط میں چونکہ صانع  یعنی سائل کا فائدہ  تھا لہذا یہ معاملہ  ہی جائز نہیں تھا اورسائل اوراس کے ساتھی دونوں  پر لازم تھا کہ اس کو ختم  کریں   ،اور یہ معاملہ  ایمر جنسی کی بنیاد پر ختم ہی ہو گیا،اب سائل اگر کسی دوسرے شخص کو یہی مال فروخت کرنا چاہ رہا ہے تو ازسرنو  صحیح   معاملہ  کرے،اور یہ سیڑھیاں  اس کو بیچ دے اور  اگر وہ ساتھی خود سیڑھیاں  نہیں بیچ سکتا ہے تو  اس کام کے لیے  کسی ايسے شخص كو وكيل بنائے جو سائل اور اس كے ملازمین كے علاوه ہو ،اور وه وكيل اس کی طرف سے ان سیڑھیوں كو قبضہ ميں لے كر آگے فروخت كردے یا مشتری آکر خریدی ہوئی سیڑھیوں پر قبضہ کرلے پھر اس کے بعد سابقہ بائع کو سیڑھیاں فروخت کرنے کی ذمہ داری دےدے۔

الدر المختار میں ہے:

"(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، فلو لم يكن كشرط أن لا يركب الدابة المبيعة لم يكن مفسدا كما سيجيء (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد (كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه نفع للبائع، وإنما قال (شهرا)لما مر أن الخيار إذا كان ثلاثة أيام جاز أن يشترط فيه الاستخدام درر.(أو يعتقه) فإن أعتقه صح إن بعد قبضه ولزم الثمن عنده وإلا لا، شرح مجمع (أو يدبره أو يكاتبه أو يستولدها أو لا يخرج القن عن ملكه) مثال لما فيه نفع لمبيع يستحقه الثمن۔"

(كتاب البيوع ،باب البيع الفاسد ،ج:5،ص:85،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وفي الزيادات إذا قبض المشتري المبيع في البيع الفاسد من غير إذن البائع ونهيه فإن قبضه في المجلس يصح القبض استحسانا ويثبت الملك فيه للمشتري وإن قبض بعد الافتراق عن المجلس لا يصح قبضه لا قياسا ولا استحسانا ولا يثبت الملك فيه للمشتري وإذا أذن له بالقبض فقبض في المجلس أو بعد الافتراق عن المجلس صح قبضه ويثبت الملك قياسا واستحسانا إلا أن هذا الملك يستحق النقض ويكره للمشتري أن يتصرف فيما اشترى شراء فاسدا بتمليك أو انتفاع۔"

(كتاب البیوع ،الباب الحادي عشر في احكام البیع الغير جائز ج:3،ص:147،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(رجل) كتب إلى رجل وهو في مدينة غير المدينة التي هو فيها فأمره أن يشتري له متاعا يصفه له وعند الرجل المكتوب إليه متاع من ذلك الجنس له أو لغيره وقد أمره صاحبه أن يبيع ذلك ما الحيلة في أن يصير المتاع للرجل الذي كتب إليه قال يبيع ذلك المتاع ممن يثق به بيعا صحيحا ويدفع إليه ثم يشتري منه الرجل الذي يكتب إليه وهذا لأنه لا يمكنه أن يبيع ذلك المتاع بنفسه من الرجل الذي كتب إليه لأن الواحد لا يتولى العقد من الجانبين ولكن يفعل على الوجه الذي قلنا ويجوز ذلك لأن البيع إنما جرى بين اثنين۔"

(کتاب الحیل،الفصل فی الوکالہ،ج:6،ص:420،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں