بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع میں دھوکے سے متعلق عربی حوالہ


سوال

144201200569 یہ فتویٰ نمبر ہے، بندہ کو مذکورہ  فتویٰ کاعربی  حوالہ درکار ہے ۔

سوال وجواب یہ ہے:

سوال:ہمارا کپڑے کا کاروبار ہے، ہم بڑی مارکیٹوں سے کپڑے میٹر کے پیمانے سے خریدتے ہیں، اور پھر اپنی دوکان میں وہی کپڑا گز کے پیمانے سے فروخت کرتے ہیں۔ تو آیا میٹر کے پیمانے سے خرید کر جو کہ چار انچ گز کے پیمانے سے لمبا ہوتا ہے۔ گز کے پیمانے سے فروخت کرنا جائز ہے کہ نہیں؟

جواب:صورتِ مسئولہ میں اگر آپ اپنی دکان پر خریدار کو  گز کے حساب سے  کپڑے فروخت کرنے کا بتا کر اس کے حساب  سے ہی قیمت لگاکر کپڑا فروخت کرتے ہیں تو یہ جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ خریدار کو میٹر کے حساب سے بتاکر گز کے حساب سے دینا دھوکا دہی ہوگا اور یہ ناجائز ہوگا۔ حاصل یہ ہے کہ جس پیمانے سے ناپ کر بیچ رہیں ہیں خریدار کو اس کا علم ہوتو  معاملہ جائز ہوگا۔ فقط واللہ اعلم

جواب

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعنه  أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال: ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء يا رسول الله. قال: أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس، من غش فليس مني.

( قال: أفلا جعلته) قال أسترت عينه أفلا جعلت البلل (فوق الطعام حتى يراه الناس) فيه إيذان بأن للمحتسب أن يمتحن بضائع السوقة ليعرف المشتمل منها على الغش من غيره. (من غش) أي خان وهو ضد النصح (فليس مني) أي ليس هو على سنتي وطريقتي."

(کتاب البیوع ،باب المنہی عنہا من البیوع،ج:5،ص:1935،ط:دار الفکر)

تبيين الحقائق ميں هے:

"لا يحل له أن يبيع المعيب حتى يبين عيبه لقوله عليه السلام: «لا يحل لمسلم باع من أخيه بيعا وفيه عيب إلا بينه له» رواه ابن ماجه وأحمد بمعناه «و مر عليه السلام برجل يبيع طعاما فأدخل يده فيه فإذا هو مبلول فقال من ‌غشنا ‌فليس ‌منا» رواه مسلم وغيره «وكتب عليه السلام كتابا بعد ما باع فقال فيه هذا ما اشترى العداء بن خالد بن هودة من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم اشترى منه عبدا أو أمة لا داء ولا غائلة ولا خبثة بيع المسلم للمسلم» رواه ابن ماجه."

(کتاب البیوع ،باب خیار العیب،ج:4،ص:31،ط:المطبعہ الکبری)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں