بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع کی ایک صورت کا حکم


سوال

میں ڈاکٹر کے پاس دوائی بنوانے گیا اور ڈاکٹر نے دوائی لینے کا وقت بھی متعین کیا اور قیمت بھی، کچھ دن بعد جب میں اپنی دوائی لینے کے لیے گیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ دوائی کی قیمت متعین کردہ قیمت سے زیادہ ہے، لیکن میں نے آپ کو جو زبان دی ہے میں آپ سے اسی کے مطابق پیسے لوں گا اور میں نے بھی متعین کردہ قیمت ہی دے دی،  یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ یہ بیع کی کون سی قسم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ معاملہ کی جو صورت ذکر کی گئی ہے اس صورت میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، اور اس طرح معاملہ کرنا درست ہے۔

پھر بیع کو مختلف حیثیتوں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے:

پہلی تقسیم: اگر بدلین (مبیع اور ثمن) کی  طرف دیکھا جائے تو بیع کی چار قسمیں ہیں: بیع مقایضہ، بیعِ مطلق، بیعِ سلم اور بیعِ صرف۔

دوسری تقسیم: اگر ثمن کی طرف دیکھا جائے تو بیع کی پانچ قسمیں ہیں: بیع مساومہ، بیع مرابحہ، بیع تولیہ، بیع اشتراک اور بیع وضیعہ۔

تیسری تقسیم: بیع کے حکم کے اعتبار سے بیع کی چار قسمیں ہیں: صحیح، فاسد،باطل، مکروہ۔

اب سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے اس کے متعلق تینوں اعتبارات سے بیع کی قسم متعین کی جاتی ہے:

پہلی تقسیم کے اعتبار سے بیعِ مطلق ہے۔

دوسری تقسیم کے اعتبار سے بیع مساومہ ہے۔

تیسری تقسیم کے اعتبار سے بیع صحیح ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 134):

"البيع في القسمة الأولى ينقسم: قسمين قسم يرجع إلى البدل، وقسم يرجع إلى الحكم.

(أما) الذي يرجع إلى البدل فينقسم قسمين آخرين: أحدهما يرجع إلى البدلين.

والآخر يرجع إلى أحدهما وهو الثمن، أما الأول فنقول: البيع في حق البدلين ينقسم أربعة أقسام: بيع العين بالعين وهو بيع السلع بالسلع، ويسمى بيع المقايضة، وبيع العين بالدين وهو بيع السلع بالأثمان المطلقة وهي الدراهم والدنانير وبيعها بالفلوس النافقة وبالمكيل الموصوف في الذمة والموزون الموصوف والعددي المتقارب الموصوف، وبيع الدين بالعين وهو السلم، وبيع الدين بالدين وهو بيع الثمن المطلق بالثمن المطلق وهو الصرف.

(فأما) الذي يرجع إلى أحد البدلين وهو الثمن فينقسم في حق البدل، وهو الثمن خمسة أقسام: بيع المساومة وهو مبادلة المبيع بأي ثمن اتفق ، وبيع المرابحة وهو مبادلة المبيع بمثل الثمن الأول وزيادة ربح، وبيع التولية وهو المبادلة بمثل الثمن الأول من غير زيادة ولا نقصان، وبيع الاشتراك وهو التولية، لكن في بعض المبيع ببعض الثمن، وبيع الوضيعة وهو المبادلة بمثل الثمن الأول مع نقصان شيء منه، وأما القسم الذي يرجع إلى الحكم فنذكره في باب حكم البيع إن شاء الله - تعالى -."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں