بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع کے بعد روپے کی ویلیو اگر گھٹ جائے تو کیا بائع زیادہ پیسوں کا مطالبہ کرسکتا ہے؟


سوال

میں نے ایک مکان خریدا ساڑھے گیارہ لاکھ کا، جس سے خریدا تھا اس کا انتقال ہوگیا، مرحوم نے یہ مکان ایک خاتون سے پانچ لاکھ کا خریدا تھا، اب ہمیں اس مکان کے کاغذات پر خاتون کے دستخط کی ضرورت ہے، بقول خاتون مرحوم پر پانچ ہزار بقایا تھے، اب اس خاتون کا کہنا ہے کہ چونکہ مکان چوبیس پچیس سال پہلے مرحوم نے خریدا تھا تو روپے کی ویلیو گھٹ گئی، لہذا مجھے ابھی اسی حساب سے پیسہ چاہئے، پھر میں کاغذات  پر دستخط کروں گی، سوال یہ ہے کہ کیا خاتون کا ہم سے پیسوں کا مطالبہ کرنا درست ہے؟ یا مرحوم کے وارثوں سے وہ مطالبہ کرے گی؟ روپے کی ویلیو میں کمی کی صورت میں پیسے بڑھانے کا مطالبہ درست ہے؟  جو شخص اس خاتون کی اس معاملے میں معاونت کرے اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ گھر کے خریدوفروخت کا معاملہ مرحوم اور خاتون کے درمیان تھا،لہذا خاتون کا سائل سے پانچ ہزار روپے کا مطالبہ کرنا درست نہیں ، خاتون پانچ ہزار روپے مرحوم کے ورثاء سے وصول کرے گی۔

2۔واضح رہے کہ ادھار کی خریدوفروخت میں جو چیز یا رقم طے کی جاتی ہے اسی کا مثل لوٹانا لازم ہوتا ہے، خواہ اس کی قیمت بڑھ گئی ہو یا کم ہوگئی ہو۔

صورتِ مسئولہ میں بشرط صدق دعویٰ  مرحوم نے جب گھر خاتون سے پانچ لاکھ میں خریدا، اور پانچ ہزار  روپے کی رقم ادا نہیں کی ، تو  اب ادائیگی کے وقت پانچ ہزار روپے ہی لوٹائے جائیں گے اور یہ ادائیگی مرحوم کے متروکہ مال میں سے کی جائےگی، اگرچہ ویلیو  میں کمی ہی کیوں  نہ آئی ہو،خاتون کا پانچ ہزار روپےسے زیادہ  روپے کا مطالبہ کرنا  شرعاً ناجائز  اور سود کے زمرے میں داخل ہے، نیز اس معاملہ میں معاونت کرنا گناہ ہے اور سود میں معاونت کرنا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه

(قوله فلا عبرة بغلائه ورخصه)۔۔۔وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه، وكذلك لو قال أقرضني عشرة دراهم غلة بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصها."

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية،ج:5،ص:132،ط:سعيد)

وفيه ايضاّ:

"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني)۔۔۔(بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير)۔۔۔(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد)."

(كتاب الفرائض،ج:6،ص:761،ط:سعيد)

درر الحكام شرح مجلة الاحكام ميں هے:

"إذا بيع بنوع من الثمن وقبل أن يؤدي الثمن إلى البائع رخص الثمن أو ‌غلا فليس البائع أو المشتري مخيرا بل المشتري ملزم بأن يدفع الثمن إلى البائع من ذلك النوع والبائع ملزم بقبوله سواء أكان الثمن من النقد الغالب الغش أم الغالب الفضة أم الذهب.

مثال ذلك: كما إذا اشترى إنسان من آخر متاعا بخمسين ريالا مجيديا من الرائج بعشرين قرشا وقبل أن يدفع المشتري الثمن ‌غلا سعر المجيدي فأصبحت رائجة باثنين وعشرين قرشا أو رخص إلى تسعة عشر قرشا فالمشتري ملزم بأن يدفع إلى البائع الخمسين ريالا مجيديا كما أن البائع ملزم بقبول ذلك ولا يلتفت إلى الغلاء أو الرخص العارض بعد العقد."

(الكتاب الاول البيوع،الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالثمن ،ج:1،ص:217،ط:دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311101395

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں