بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہو پر ساس کی خدمت لازم نہیں ہے


سوال

ایک جوائنٹ فیملی کے  گھر میں بہو آجائے اور ساس سسر نے اپنے تمام بیٹوں کے لیے ایک ہی جگہ پر الگ الگ گھر بنائے ہوں،  تو اس میں ایک بہو یہ کہے کہ ساس سسر کی طرف سے بنایا گیا گھر اور جوائنٹ فیملی کی چیزیں تو میری ہیں، لیکن ان کی خدمت کرنا میرے اوپر واجب نہیں ہے، حالاں کہ حق مہر میں گھر کا کوئی ذکر ہی نہ ہو، وہ تنخواہ بھی لیتی ہے اور اسے گھر والوں پر بھی خرچ نہیں کرتی اور گھر کے کام کاج بھی نہیں کرتی، لیکن گھر میں موجود کام کی ساری چیزیں استعمال کرتی ہے اور نان نفقہ بھی انہی باقی گھر والوں سے لیتی ہے، تو اس کے بارے میں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟  اور ساتھ میں یہ حدیث بھی دہراتی ہے کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ :" شریف آدمی پر اس کی بیوی حاوی ہو جاتی ہے اور وہ شخص کمینہ ہے جو اپنی بیوی کو سو فیصد کنٹرول کر لے۔" 

جواب

صورتِ مسئولہ میں شادی کے وقت جو مہر طے ہوا تھا، وہی اس لڑکی کا حق ہے، اس کے علاوہ سسرال والوں کے گھروں پر  اور سامان پر اپنا ہونے کا دعوی کرنا درست نہیں اور نہ ہی اس دعوی کا کوئی اعتبار ہوگا۔ 

اور عورت کا نان نفقہ اس کے شوہر کے ذمہ لازم ہے چاہے وہ خود کماتی ہو، باقی جہاں تک ساس سسر کی خدمت کا تعلق ہے، تو شرعا تو ساس سسر کی خدمت  اس کے ذمہ لازم نہیں ہے، البتہ اس کا اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ اپنے شوہر کے ماں باپ کو اپنے ماں باپ کا درجہ دے کر ان کی خدمت کرے۔

اور جو حدیث سوال میں مذکور ہے، حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ حدیث نہیں مل سکی، بغیر تحقیق کے کسی بات کو حدیث کا درجہ دینے سے احتیاط کرنی چاہیے۔

باقی مذکورہ لڑکی کو چاہیے کہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آئے اور  اپنے ساس اور سسر کو اپنے ماں باپ کا درجہ دے کر ان کی بھی خدمت کرے۔

فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"شرعاً ہندہ کے ذمہ شوہر کی ماں کی خدمت واجب نہیں، لیکن اخلاقی طور پر اس کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ اس کے شوہر کی ماں ہے، تو اپنی ماں کی طرح اس کو بھی راحت پہنچانے کا خیال رکھے اور شوہر کی اطاعت کرے، آخر جب ہندہ کو ضرورت پیش آتی ہے، تو شوہر کی ماں  اس کی خدمت کرتی ہے، اس طرح آپس کے تعلقات خوشگوار رہتے ہیں اور مکان آباد رہتا ہے، البتہ شوہر کو بھی چاہیے کہ اپنی بیوی سے نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے، اس کو سمجھائے کہ میں تمہاری ماں کا احترام کرتا ہوں اور انکو اپنی ماں کی طرح سمجھتا ہوں، تم بھی میری ماں کو اپنی ماں کی طرح سمجھو۔ نیز بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔فقط واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔"

(باب احکام الزوجین، ج:18،  ط:ادارۃ الفاروق)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(الفصل الأول في نفقة الزوجة) تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي خان سواء كانت حرة أو مكاتبة كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر، ج:1، ص:566، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100756

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں