بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہو کو بوسہ دینے کی وجہ سے بیٹے اور بہو کے نکاح کا حکم


سوال

میں، میرے والد اور میری بیوی کار میں سفر کر رہے تھے، میرے والد نے میری موجودگی میں میری بیوی کو بوسہ دیا، اس سے میرے نکاح میں کوئی فرق تو نہیں ہوا؟

جواب

اگر کوئی سسر اپنی بہو کو ایسی جگہ بوسہ دے جہاں بوسہ دینے  میں شہوت غالب ہوتی ہو  تو ایسا بوسہ دینے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی اُس عورت  کا بوسہ دینے والے کے بیٹے کے ساتھ رہنا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتا ہے، البتہ اگر قرائن و احوال سے ایسا معلوم ہوتا ہو کہ بوسہ شہوت کے ساتھ نہ تھا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہو گی اور دونوں کا ساتھ رہنا جائز ہو گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں قرائن و احوال کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ بوسہ شہوت کے ساتھ تھا یا نہیں، اگر شہوت کے ساتھ ہو تو میاں بیوی کا  ساتھ رہنا ہمیشہ کے لیے حرام ہو گا، شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے کر  یا نکاح سے خارج کرنے کے الفاظ کہہ کر فارغ کر دے، پھر بیوی اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہو گی۔

اور اگر بوسہ شہوت کے ساتھ نہ ہو، بلکہ از راہِ شفقت ہو تو ایسی صورت میں دونوں کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 35):

"(قوله: قبل أم امرأته إلخ) قال في الذخيرة، وإذا قبلها أو لمسها أو نظر إلى فرجها ثم قال لم يكن عن شهوة ذكر الصدر الشهيد أنه في القبلة يفتى بالحرمة، ما لم يتبين أنه بلا شهوة وفي المس والنظر لا إلا إن تبين أنه بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة بخلاف المس والنظر."

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 65):

"وكذلك إذا قبلها ثم قال: لم تكن عن شهوة، أو لمسها أو نظر إلى فرجها (وقال) : لم يكن عن شهوة فقد ذكر الصدر الشهيد رحمة الله: أن في القبلة يفتى ثبوت الحرمة ما لم يتبين أنه قبّل بغير شهوة، وفي المس والنظر إلى الفرج لا يفتى بالحرمة، إلا إذا تبين أنه فعل بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة، بخلاف المس والنظر.

الدليل عليه: أن محمداً رحمه الله في أي موضع ذكر التقبيل لم يقيده بشهوة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں