اگر ایک لڑکی اپنے ساس سسر کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتی ہو اور اس کے پاس ایک جانور ہو جو ان کو حق مہر میں ملا ہو، پھر کچھ عرصہ کے بعد اس جانور کو اس عورت کا سسر فروخت کر دے اور اس وقت وہ عورت کوئی اعتراض بھی نہ کرے فروخت کرنے پر اور رقم مشترکہ گھر میں استعمال کرے، اب بارہ سال بعد اپنے ساس سسر سے الگ ہونے کے بعد وہ عورت اپنے سسر پہ دعوی کرتی ہے کہ آپ نے میرے جانور کو فروخت کیا تھا، اس لیے اب اس جانور کی رقم مجھے دے دیں، اگر آپ نہیں دیں گے تو قیامت کے دن میں آپ سے لوں گی، اب سوال یہ ہے کہ آیا وہ عورت اپنے سسر سے وہ رقم وصول کر سکتی ہے یا نہیں؟ یاد رہے کہ وہ رقم مشترکہ گھر میں استعمال ہوئی تھی اور اس عورت نے جانور فروخت کرنے پر اس وقت کوئی اعتراض بھی نہیں کیا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سسر نے اپنی بہو کی ملکیت والا جانور بہو کی اجازت کے بغیر فروخت کرکے اس کی رقم گھر کے مشترکہ خرچہ میں استعمال کردی تھی تو سسر پر اس جانور کی قیمت بہو کو واپس کرنا لازم ہے؛ کیوں کہ فروخت کے وقت بہو کے خاموش رہنے اور کوئی اعتراض نہ کرنے کو اس کی رضامندی کی علامت قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اور چوں کہ مشترکہ گھر کا خرچہ سسر یا شوہر کے ذمہ ہوتا ہے؛ اس لیے سسر کا بہو کی اجازت کے بغیر اس کا مملوکہ جانور فروخت کر کے مشترکہ گھر کے خرچہ میں استعمال کرنا درست نہیں تھا؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بہو کا اپنے سسر سے جانور کی قیمت کا مطالبہ کرنا اور وہ رقم وصول کرنا درست ہے۔
الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 129):
"القاعدة الثانية عشرة: لاينسب إلى ساكت قول.
فلو رأى أجنبيًّا يبيع ماله فسكت و لم ينهه لم يكن وكيلًا بسكوته، و لو رأى القاضي الصبي أو المعتوه أو عبدهما يبيع و يشتري فسكت لايكون إذنًا في التجارة، و لو رأى المرتهن الراهن يبيع الرهن فسكت لايبطل الرهن و لايكون رضًا في رواية،و لو رأى غيره يتلف ماله فسكت لايكون إذنًا بإتلافه، و لو رأى عبده يبيع عينًا من أعيان المالك فسكت لم يكن إذنًا، كذا ذكره الزيلعي في المأذون."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212202371
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن