اگرمیری بیوی میرے باپ کو کوئی دوا لگادے اس کےبدن میں تو کیا یہ جائز ہے؟
صور تِ مسئولہ میں اگر سائل کے والد کو بدن پر دوا لگانے کی ضرورت ہو تو سائل کو چاہیے کہ وہ خود یا گھر میں موجود کسی اور مرد یا اپنی والدہ (اگر وہ حیات ہوں ) کے ذریعے اپنے والد کے بدن پر دوا لگوانے کی ترتیب بنائے، حتی الامکان اپنی بیوی سے والد کی جسمانی خدمت نہیں لینی چاہیے، البتہ اگر کوئی مجبوری ہو اور فتنہ (شہوت) کا اندیشہ نہ ہو تو ستر ـ(ناف سے لے کر گھٹنے سے نیچے تک) کے علاوہ دیگر حصہ میں دوا لگانے کی گنجائش ہوگی، ناف سے لے کر گھٹنے کےدرمیان والے حصہ میں دوا لگانا بہر صورت جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولا بأس للرجل أن ينظر من أمه وابنته البالغة وأخته وكل ذي رحم محرم منه كالجدات والأولاد وأولاد الأولاد والعمات والخالات إلى شعرها وصدرها وذوائبها وثديها وعضدها وساقها، ولا ينظر إلى ظهرها وبطنها، ولا إلى ما بين سرتها إلى أن يجاوز الركبة وكذا إلى كل ذات محرم برضاع أو مصاهرة كزوجة الأب والجد وإن علا وزوجة ابن الابن وأولاد الأولاد ...وما حل النظر إليه حل مسه ونظره وغمزه من غير حائل ولكن إنما يباح النظر إذا كان يأمن على نفسه الشهوة، فأما إذا كان يخاف على نفسه الشهوة فلا يحل له النظر، وكذلك المس إنما يباح له إذا أمن على نفسه وعليها الشهوة، وأما إذا خاف على نفسه أو عليها الشهوة فلا يحل المس له."
(كتاب الكراهية، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له، 5/ 328، ط: رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512101761
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن