بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بہو کا سامان بغیر اجازت بیٹی کو دینا


سوال

میری بہن اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ پاکستان سے باہر شفٹ ہو گئی ہے، جب کہ اس کا جہیز کا سامان یہیں ہے، بہن کے سسر اس کا سارا فرنیچراور کمرہ اپنی بیٹی کو دینا چاہ رہے ہیں جب کہ میری بہن ایسا نہیں چاہتی،براۓ کرم اس بارے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ یہ صحیح ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ سامان آپ کی بہن کی ملکیت ہے، اور کسی کی چیز کو بغیر اس کی اجازت کے استعمال کرنا جائز نہیں، لہذا آپ کی بہن کے سسر کا مذکورہ سامان اپنی بیٹی کو دینا جائز نہیں، اگر بلا اجازت ایسا کرے گا تو سسر گناہ گار قرار پائے گا اور یہ غصب اور ظلم ہوگا، البتہ اگر  کمرہ آپ کی بہن کی ملکیت نہیں ہے تو وہ  کمرہ اپنی بیٹی کو دے سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، ج:4، ص:61، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لو ‌جهز ‌ابنته ‌وسلمه ‌إليها ‌ليس ‌له ‌في ‌الاستحسان ‌استرداد ‌منها ‌وعليه ‌الفتوى.....وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ج:1، ص:327، ط:دار الفكر بيروت)

مرقات المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(قال: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ألا ") بالتخفيف للتنبيه (" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعارية، ج:5، ص: 1974، ط: دار الفكر، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں