بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بہو کا اپنی بیمار ساس کے زیر ناف بال صاف کرنا


سوال

کیا بہو اپنی بیمار ساس کے زیر ناف بال صاف کرسکتی ہے؟

جواب

اگر ساس اس قدر بیمار ہے کہ بیماری کی وجہ سے اپنے زیر ناف بال خود سے  کسی بھی طرح کریم وغیرہ سے صاف نہیں کرسکتی تو وہ اپنے شوہر سے مدد لے سکتی ہے،اگر شوہر نہیں ہے تو مجبورابیٹی اپنے  ہاتھوں پر دستانے (میڈیکل گلوز وغیرہ ) چڑھاکر (جس سے اعضاءمستورہ  کی جسامت  حتی الامکان محسوس نہ ہو)شرم گاہ پر نظر ڈالے بغیر کسی کریم وغیرہ سے ان کے زیر ناف بال صاف کرسکتی ہے،  شرم گاہ کی طرف دیکھنے کی اجازت پھر بھی نہیں ہوگی۔اور اگر بیٹی  بھی موجود نہیں ہے تو  بہو اپنی ساس  کے مذکورہ طریقے سے بال صاف کرسکتی ہے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

ذكر الفقيه أبو الليث رحمه الله في «فتاويه» في باب الطهارات؛ قال محمد بن مقاتل الرازي: لا بأس بأن يتولى صاحب الحمام عورة إنسان بيده عند التنوير إذا كان يغض بصره كما أنه لا بأس به إذا كان يداوي جرحاً أو قرحاً، قال الفقيه: وهذا في حالة الضرورة لا في غيرها؛ لأن كل موضع لا يجوز النظر إليه لا يجوز مسه، إلا من فوق الثياب، وينبغي لكل أحد أن يتولى عانته بيده إذا تنور، فإنه روي عن النبي عليه السلام كان يتولى ذلك بنفسه.

وإذا أصابت المرأة قرحة في موضع لا يحل للرجل أن ينظر إليه، علم امرأة دواءها لتداويها؛ لأن نظر الجنس إلى الجنس أخف وكذا في امرأة العنين تنظر إليها النساء، فإن قلن: هي بكر فرق القاضي بينهما، وكذا لو اشترى جارية على أنها بكر، فقبضها فقال: وجدتها ثيباً؛ تنظر إليها النساء للحاجة إلى فصل الخصومة، وإن لم يجدوا امرأة تداوي تلك القرحة، ولم يقدروا على امرأة تعلم ذلك، وخافوا أنها تهلك، أو يصيبها بلاء أو وجع، فلا بأس بأن يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها رجل، ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع؛ لأن نظر الجنس إلى غير الجنس أغلظ، فيعتبر فيه تحقق الضرورة، وذلك عند خوف الهلاك، وذوات المحارم والأجنبيات في هذا على السواء؛ لأن النظر إلى العورة لا يحل بسبب المحرمية."

(کتاب الاستحسان والکراہیۃ،ج5،ص377،ط؛دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں