بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے انتقال کے بعد بہو اپنا نکاح سسر کی مرضی سے کرے گی یا اپنی مرضی سے؟


سوال

شادی کے کچھ عرصہ بعد لڑکا انتقال کر جاتا ہے،  انتقال کے وقت لڑکے کی بچی کی عمر تقریبا ڈیڑھ سال  تھی،  اور آج تقریبا ً پانچ سال ہے،  بچی کے دادا نے اپنی بہو کو  آفر کی تھی کہ اگر اپ شادی کرنا چاہتی ہے تو میرے  دوسرے  بیٹے  سے نکاح  کرا دیتا ہوں ، بچی کی ماں نے صاف انکار کر دیا،  اور یہ نیک ارادہ فرمایا کہ میں اپنی تمام زندگی اپنی بچی کی اچھی پرورش پر لگاؤں گی ، بچی کے دادا ہنسی خوشی اپنی بہو اور  پوتی کی پرورش میں لگ گئے،  عدت کا عرصہ بہت سکون سے گزرا ، عدت کےفورا بعد بہو کے والد تشریف لائے اور اپنی بیٹی اور  نواسی کو ساتھ لےگئے،  کچھ عرصہ کے بعد بہو کی بہن اور بہنوئی بغیر کچھ بتلائے  سامان اٹھانے آگئے اور تقاضہ کیا کہ ہم نے یہ سامان سیل کر دیا ہے ، دادا نے  بوجھل دل سے تمام سامان واپس کر دیا ، بلکہ کچھ نقد کی صورت میں بھی ادائیگی کی،  سامان اٹھانے کے ایک ہفتہ بعد بغیر مشورہ و بغیر کسی کی اجازت سے بہو نے دوسری جگہ نکاح کر لیا،  دادا اس تمام معاملات سے لاعلم تھے،  جب کہ لڑکی کی بہن اور والدین اس معاملے میں شریک تھے ، دادا کو اپنی پوتی دوسری خاندان میں دینے کی شدید تکلیف ہے،  دادا کا مطالبہ ہے کہ میری پوتی میرا خون مجھے واپس دی جائے ، جبکہ بچی اس  ماں  کی بجائے اپنے نانا اور نانی کے ساتھ رہ رہے ہیں،  دادا کی طرف سے جو سامان زیور وغیرہ بہو کو دیا گیا تھا،  وہ نانا اور نانی کے پاس ہے،  جب کہ وہ دادا کی  پوتی کی ملکیت ہے،  بہو نے جب دوسرا نکاح کیا تو اپنا سابقہ تمام زیور اپنے والدہ اور والد کو دے دیا ، دادا  کی علماء کرام سے التجا ہے کہ اسلام کی روسے   جو معاملات

بہتر ی کی طرف جاتے ہیں،  اس میں  میری راہ نمائی فرمائے ، اور مجھے میری پوتی واپس دی جائے ، جو میرے دوسرے بچوں کا حق ہے میری پوتی بھی اس سے میں برابر کی حصہ دار ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ

1)بہو کا اپنے سسر کے علم میں لائے بغیر دوسری جگہ نکاح کرنا درست ہے یا نہیں؟ لڑکی کے والدین نے بھی سسر کو کوئی پیغام نہیں دیا اور لڑکی کا ساتھ دے دیا ۔

2)مذکورہ  پوتی اب کس کی پرورش میں رہے گی،  جبکہ بچی (پوتی )کی والدہ نے دوسری خاندان میں جو  بچی کے رشتہ میں کچھ نہیں لگتے ان سے شادی کی ہے ، اور نو سال کے بعد کس کے پرورش میں رہے گی اور اس کے  نکاح کے اختیارات کس کے ہوں گے؟

3)نکاح نامہ میں جو مہر لکھا ہے اس بارے میں لڑکی والوں کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ روپے ہمیں نہیں ملے ہیں،  جبکہ لڑکے والوں کا کہنا ہے کہ ہم ادا کر چکے ہیں ، پر  لڑکے  والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ واقعۃً  نہیں ملے ہیں تو ہم دینے کے لیے تیار ہیں،  اور اسی طرح ان کا  نکاح نامہ میں  مہر کے طور پر ایک کمرہ بھی لکھا ہے جس کے بارے میں لڑکی والوں کا کہنا ہے کہ ہم نے اس کو فروخت کر کے پیسے لینا ہے،  تو آیا  یہ کس کا حق ہے؟ اس بارے میں شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

1)واضح رہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد عدت مکمل ہونے کے ساتھ ہی مرحوم کی بیوہ اس کے نکاح سے مکمل طور پر آزاد ہوجاتی ہے، اور اپنی بقیہ زندگی کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتی ہے،   سسرال والوں کو اس بات کا حق نہیں ہوتا کہ وہ  اس کو کسی  سے نکاح کرنے پر اسے مجبور کرسکیں۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل کی بہو کی  عدت گزرنے کے بعد  بہو کا اپنے والدین کے  مشورہ کے مطابق دوسری جگہ نکاح کرنا درست تھا، اور اس پر سسر کا اعتراض کرنا  درست نہیں ہے  ۔

2)اگر واقعۃً سائل کی بہو نے  ایسی جگہ شادی کی ہے کہ وہ اس بچی کے لیے غیر محرم ہے، تو بچی کی پرورش کا حق نو سال تک اس کی نانی  کے پاس رہے گا،  اور نو سال کی عمر مکمل ہوجانے کے بعد  بچی کی تربیت کا حق لڑکی کے داداکو   حاصل ہوگا، اور اس بچی(پوتی) کا نکاح کرانے کا حق بھی دادا کو حاصل ہوگا۔

3)لڑکی والوں کا کہنا ہے کہ مہر کے ایک لاکھ روپے انہیں نہیں ملے،  اور لڑکے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ادا کر دیے ہیں  تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر لڑکے  والوں کے پاس ایک لاکھ ادا کرنے پر معتبر گواہ یا ثبوت ہے تو دوبارہ ایک لاکھ ادا کرنے کی ضرورت نہیں اور اگر ان کے پاس مہر ادا کرنے پر کوئی ثبوت نہیں ہے تو لڑکی والوں پر قسم آئے گی ، اگر وہ قسم اٹھا لیتے ہیں کہ انہوں نے یا بیوہ نے  مہر کی رقم وصول نہیں کی  ، تو مرحوم شوہر کے ترکہ کی تقسیم سے پہلے مہر کی مذکورہ  رقم ادا کی جائے گی، اسی طرح جو کمرہ مہر میں لکھا گیا ہے، وہ بھی سائل کی بہو کا حق ہے، وہ جس طرح چاہیے اس میں تصرف کرسکتی ہے، اگر وہ اس کو فروخت کرکے پیسے لینا چاہتی ہے، تو لے سکتی ہے۔

ملحوظ رہے شادی کے موقع پر بہو کو جو زیورات   میکے کی جانب سے ملے تھے، وہ  بہو کی ملکیت ہیں، اس کے علاوہ جو زیور  بہو کو اس کے سسرال والوں نے دیاتھا،اگر بطورِ تحفہ یا ہدیہ دیاہو یا بطورِ مالک دینے کی صراحت کی ہو تو وہ زیور بھی اس کی ملکیت کہلائے گا، اور اگریہ زیور دیتے وقت اس بات کی صراحت کی ہو کہ صرف استعمال کے لیے ہیں، تو پھر و ہ زیور  بہو (بیوہ )کا نہیں کہلائے گا، لیکن اگر وہ زیور دیتے وقت کسی قسم کی کوئی صراحت نہ کی ہوتو پھر سسرال والوں کے عرف کے مطابق دلہن کو شادی کے موقع پر بطورِ ملک دینے کا رواج ہوتو وہ  بہو کی ملکیت شمار ہوگا،اور اگر بطورِ عاریت دینے کا عرف ہوتو پھر زیور سسرال والوں کی ملکیت کہلائے گااور اگر  بہو کے سسرال کے ہاں کسی قسم کا کوئی عرف رائج نہ ہو تو عرفِ عام کا اعتبار کرتے ہوئے یہ زیور گفٹ سمجھا جائے گااور لڑکی کی ملکیت ہوگا۔

1)فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لا ‌يجوز ‌نكاح ‌أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، وإن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح، ج:1، ص:287، ط:دار الفكر)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر  میں ہے:

"(ولا ‌يجبر ولي بالغة) على النكاح بل ‌يجبر الصغيرة عندنا ولو ثيبا؛ لأن ولاية الإجبار ثابتة على الصغيرة دون ‌البالغة (ولو بكرا)."

(كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، ج:1، ص:333، ط:دار إحياء التراث العربي)

2)فتاوی  شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية..ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

(‌‌كتاب الطلاق، باب الحضانة،ج:3، ص:566،  ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أحق الناس ‌بحضانة ‌الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق. ...  وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير."

( كتاب الطلاق ، الباب السادس عشر في الحضانة ، ج:1 ، ص:541 ، ط: دارالفكر)

وفیہ ایضاً:

"تثبت الولاية بأسباب أربعة بالقرابة والولاء والإمامة والملك، كذا في البحر الرائق. وأقرب الأولياء إلى المرأة الابن ثم ابن الابن، وإن سفل ثم الأب ثم الجد أبو الأب، وإن علا، كذا في المحيط."

( كتاب النكاح ،الباب الرابع في الأولياء في النكاح ، ج:1 ، ص:283، ط: دارالفكر)

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:
قال الحنفية: الولي في النكاح العصبة بنفسه وهو من يتصل بالميت حتى المعتق بلا توسط أنثى على ترتيب الإرث والحجب، فيقدم الابن على الأب عند أبي حنيفة وأبي يوسف خلافاً لمحمد حيث قدم الأب، وفي الهندية عن الطحاوي: إن الأفضل أن يأمر الأب الابن بالنكاح حتى يجوز بلا خلاف، وابن الابن كالابن، ثم يقدم الأب، ثم أبوه، ثم الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم ابن الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم العم الشقيق، ثم لأب، ثم ابنه كذلك، ثم عم الأب كذلك، ثم ابنه كذلك، ثم عم الجد كذلك، ثم ابنه كذلك۔"

 (‌‌الولي، ‌‌النوع الثاني: ولاية المشاركة أو ولاية الندب والاستحباب، ترتيب الأولياء، ج:41، ص:275،   ط: وزارة الأوقاف و الشئون الإسلامية)

3)بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة.الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين، سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط شيء منه بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، أما التأكد بالدخول فمتفق عليه".

(كتاب النكاح، فصل أما بيان ما يتأكد به المهر،ج:2، ص:584،  ،ط :دارالاحياء التراث)

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها.قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ‌ليلة ‌العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا.

(جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك وفي صحته) بل تختص به (وبه يفتى)."

(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:135 تا 158، ط: سعيد)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف تكون لمن تأتي باسمه من المختون أو العروس أو الوالد والوالدة وإن لم يذكر أنها وردت لمن ولم يمكن السؤال والتحقيق فعلى ذلك يراعى عرف البلدة وعادتها.

(الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل ‌في ‌حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفا وعادة على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الثاني في بيان احكام الهبة، ج:2، ص:482، ط:دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں