بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوئی سے پردہ اور شوہر کے پہلے اولاد کا میراث مستحق ہونے کاحکم


سوال

میں نے اپنی بہن کی شادی غیر قوم میں کی تھی ، جس شخص سے شادی کی، اس کی پہلی بیوی  فوت ہوگئی تھی ،اس سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے ، جب اس نے ان دونوں کی شادی  کی تو شوہر کی  بیٹی نے میری بہن سے   کہاکہ آپ اپنے بھائی کے گھر چلی جائیں ، بہن کے شوہر کے مکان میں صرف دوکمرے تھے ، بہن جب میرے پاس  آئی تو میں نے اپنے ایک پلاٹ میں سے ایک ٹکڑا ( 47فٹ لمبائی ، 31 فٹ چوڑائی ) بہن کو فی سبیل اللہ دے دیا اور یہ تحریر لکھ دی جو منسلک ہے ،پھر بہن اپنے شوہر کے ساتھ  یہاں رہنے لگی ، اب بہن کا نتقال ہوگیاہے ، انتقال سے چنددن پہلے  بہن نے یہ کہا تھا ، کہ اگر میراانتقال ہوجائے تو میرا شوہر اس جگہ پر نہیں رہے گا بلکہ اپنے بچوں کے پاس رہے گا۔

دریافت یہ کرناہے کہ :

1۔ بہن کے انتقال کے بعد ان کے شوہر کیامیرےگھر کی خواتین مثلامیری  بہن ، بیوی ، بیٹی کے لیے نامحرم ہیں یعنی پہلے بہنوئی کا جو رشتہ تھا اب وہ باقی ہے یاختم ہوگیاہے ؟

2۔کیاشوہر کی اولاد جوکہ پہلی بیوی سے تھی  ان کا اس گھر پر کوئی  حق بنتاہے ؟ میری بہن کی اپنی کوئی  اولاد نہیں تھی ، شوہر زندہ ہے۔

3۔انتقال سے پہلے بہن نے جو کہاتھا  کہ شوہر اس جگہ پر نہ رہے گا، بلکہ اس کو عمارت کا خرچہ  دے کر واپس بھیج دویہ درست ہے یانہیں ؟ کیااس پر عمل ہوگا؟

مرحومہ کی ورثاء :شوہر  ایک بھائی دوبہنیں ہیں ۔والدین زندہ نہ تھے ۔کوئی اولاد نہیں تھی ۔

جواب

1۔صورت مسئولہ میں سائل کا بہنوئی  ،سائل کی بیوی ، بیٹی اور بہن کے لیے  جس طرح سائل کی بہن کی زندگی میں شرعا  غیر محرم تھااسی طرح اب بہن کے انتقال کے بعد بھی شرعاغیر محرم ہے ۔

الدرالمختار میں ہے:

"(وتمنع) المرأةالشابة (من كشف الوجه بين رجال) لا لأنه عورة بل (لخوف الفتنة) كمسه وإن أمن الشهوة لأنه أغلظ."

(1مطلب فی سترالعورۃ /406ط :سعید)

2۔ سائل نے اپنے مملوکہ پلاٹ میں سے زمین کا جس قدر حصہ  اپنی مذکورہ بہن کو مالکانہ قبضہ اور تصرف کے ساتھ دے دیا تھا، وہ  سائل کی بہن کے حق میں وہ تبرع اوراحسان  تھا، اب بہن کے انتقال کے بعد اس کے  متروکہ گھرمیں اس کے شوہر کے  پہلی بیوی سے پیداشدہ اولاد کا کو ئی حق نہیں ہے ، بلکہ یہ متروکہ مکان  مرحومہ کے تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

الدرالمختار میں ہے:

"(ويستحق الإرث) ۔۔۔۔۔ بأحد ثلاثة (برحم ونكاح) ۔۔۔(وولاء)۔"

 (کتاب الفرائض 6/762ط:سعید)

3۔صورت مسئولہ میں چوں کہ زمین سائل کی بہن کی ملکیت ہے اور شوہر نے تعمیر   کا خرچہ بھر اہے تو شوہر کو  تعمیر  کا خرچہ ملے گا، اوربقیہ مکان میں بھی  شوہر  بطور وارث اپنی شرعی حصے کے بقدر حق دار ہے ، شوہر  کو میراث کے طور پر مذکور ہ مکان میں جو حصہ ملے گا وہ اس میں خود مختار ہے ۔

الدر المختار میں ہے:

"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء   ۔"

    (الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین ،مسائل شتی،ج۶،ص۷۴۷،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"للمالك أن يتصرف في ملكهأي تصرف شاء"۔

(فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل 6/264ط:سعید)

 مرحومہ کے ترکے کی تقسیم  کا شرعی طریقہ یہ  ہے کہ سب سے پہلے   مرحوم  کے حقوقِ متقدّمہ یعنی تجہیز وتکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد  اگر مرحومہ  کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ  سے ادا کرنے کے بعداور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی  میں سے نافذ کرنے کے بعدباقی  کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو8حصوں میں تقسیم کرکے مرحومہ  کے شوہر کو4حصے، مرحومہ کے بھائی کو2حصےاورمرحومہ کے ہرایک بہن کو 1،1حصہ  ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے :

میت:ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 8/2

شوہر بھائی بہن بہن 
11
4211

یعنی 100روپے میں سے مرحومہ کےشوہر  کو50روپے،   مرحومہ کے   بھائی  کو25روپے ،اور اس کی ہرایک بہن  کو12.5روپے  ملیں گے ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144304100768

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں