بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کی شادی وغیرہ پر خرچ کی ہوئی رقم ان کے حصے میں سے کاٹنے کا حکم


سوال

میرے والد اور والدہ کے انتقال کے بعد میں نے اپنی دو بہنوں کی شادی کروائی ہے قرض لے کر ،اور اس قرضے کی ادائیگی میں کر رہا ہوں، اب میری بہنیں مجھ سے والد کی وراثت کا حق مانگ رہی ہیں ،آپ ہمیں بتائیں کہ والد کے انتقال کے بعد بہنوں کی شادی کا فرض بھائی پر ہوتا ہے یا نہیں ،کیا ان کی شادی کے اخراجات (یعنی جہیز اور کھانا کھلانا وغیرہ کے اخراجات) ان کے حق سے کاٹ کر اس سے ان کی شادی کے لیے لیا جانے والا قرض ادا کر سکتے ہیں ؟یا یہ بھائی کا فرض ہے کہ بھائی والد کے انتقال کے بعد بہنوں کی شادی کروائے؟

وضاحت: میں نے بہنوں کی فرمائش پر ان کی پسند کا جہیز ان کو لے کر دیا اور شادی پر کھانے کے اخراجات بھی ادا کیے، لیکن اس وقت میری یہ پیسے بہنوں سے واپس لینے یا میراث کے حصے میں سے کاٹنے کی کوئی نیت نہیں تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ نے اپنی بہنوں کی شادی کے موقع پر قرض لے کر جو اخراجات کیے (یعنی جہیز دلایا اور شادی کا کھانا کھلایا وغیرہ) تو چوں کہ یہ اخراجات ادا کرتے وقت آپ کی نیت بہنوں سے ان اخراجات کے بقدر رقم واپس لینے یا ان کے حصے سے کاٹنے کی نہیں تھی اور نہ ہی بہنوں سے اس طرح کا کوئی معاہدہ ہوا تھا، بلکہ آپ نے بہن سمجھ کر بطور بھائی یہ نیکی اور احسان والا معاملہ ان کے ساتھ کیا تھا، اس لیے اب آپ ان کی شادی کے اخراجات کے لیے لیا جانے والا خرچہ ان کے حصے سے نہیں کاٹ سکتے ہیں۔ اگر کوئی  بہنوں کی شادی کے اخراجات  ادا کردیتا ہے تو یہ بڑے ثواب اور سعادت کی بات ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:کسی مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے (یعنی اس کو دینے میں صرف صدقہ ہی کا ثواب ملتا ہے)مگر اپنے اقرباء میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے،ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی(رشتہ داروں سے حسن سلوک )کا ہوتا ہے۔ (مظاہر حق،ج:3،ص:271،ط:دار الاشاعت)

مشکا ۃ المصابیح میں ہے:

"وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة ". رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي".

(کتاب الآداب،باب افضل الصدقۃ،ج:1ص:604،ط:المکتب الاسلامی)

تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے : 

"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب المداینات، 2/ 391،ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100842

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں