بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کا بھائی سے حج کرانے کا مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

1 : لڑکی شادی کے بعد بھی کیا بھائی  کی ذمہ داری میں رہتی ہے؟جب کہ ماں باپ فوت ہوچکے ہوں اور انہوں نےترکے میں کوئی بڑی جائداد نہ چھوڑی ہو،اور بھائی بھی نوکری پیشہ ہوں اور اُن کےاپنے بیوی بچے اور گھربار ہوں؟اس سلسلے میں بہنیں کیا بھائیوں سےشرعًا جبرًا حج کا مطالبہ کرسکتی ہیں؟ جب کہ بڑے بھائی نے پہلے ہی اُنہیں رہائش کے لئے ایک الگ گھر دیا ہویعنی بڑےبھائی کا احسان پہلے ہی مختلف شکلوں میں موجود ہو؟

2: ایک آدمی حج پر جانا چاہتا ہے اور مالی وسائل اور اسباب مہیّا نہ ہوں تو وہ شرعًا کیا طریقہ اختیار کرے؟ہمارے اسلاف اور اکابرین اور موجودہ بزرگ احباب کا وہ کیا ایسا مجرِّب عمل ہے کہ قدرتِ کاملہ کی طرف سے سارے اسباب مہیّا ہوجائیں اور وہ با آسانی حج پر چلا جائے۔

جواب

1: واضح رہے کہ کسی بھی خاتون کی شادی ہوجانے کے بعد اس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری اس کے شوہر کے ذمہ ہوتی ہے۔لہذا بھائی کے ذمہ اس کے مال میں سے اپنی بہن کو حج کرانا لازم نہیں ہے، اور نہ بہنیں بھائی کو حج کروانے پر مجبور کرسکتی ہے، خاص کر  جب کہ بھائی  کی مالی حالت بھی اس کی متحمّل نہ ہو، البتہ اگر بھائی اپنی رضامندی سے اپنے مال سے بہنوں کو حج کرانا چاہے تو یہ اس کی طرف سے تبرع واحسان ہے۔

2: اگر کوئی آدمی صاحبِ استطاعت نہیں ہے، تو حج اس پر فرض نہیں ہے، تاہم حج کے اسباب نہ ہونے کے باوجود بھی خواہشمند ہے تو پنج وقتہ نمازوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ درجِ ذیل وظائف کا اہتمام کرے، ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ مطلوبہ مراد پوری کرلیں گے:

"وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه"

مذکورہ دونوں آیتوں میں لفظِ اللہ دو مرتبہ آیا ہے، اور دونوں کے درمیان دعا مانگنے سے ان شاء اللہ تعالیٰ مطلوبہ دعا قبول ہوجائےگی۔

(ماخوذ: اعمالِ قرآنی، عنوان: برائے قبولیتِ دعا، ص:21، ط:دارالاشاعت)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"قال (النفقة واجبة للزوجة على زوجها مسلمة كانت أو كافرة إذا سلمت نفسها إلى منزله فعليه نفقتها وكسوتها وسكناها) والأصل في ذلك قوله تعالى {لينفق ذو سعة من سعته} [الطلاق: 7] وقوله تعالى {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف} [البقرة: 233] وقوله - عليه الصلاة والسلام - في حديث حجة الوداع «ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف» ولأن النفقة جزاء الاحتباس فكل من كان محبوسا بحق مقصود لغيره كانت نفقته عليه: أصله القاضي والعامل في الصدقات. وهذه الدلائل لا فصل فيها فتستوي فيها المسلمة والكافرة (ويعتبر في ذلك حالهما جميعا).

نفقة الغير تجب على الغير بأسباب الزوجية والقرابة والملك، فبدأ بالزوجات إذ هي الأصل في ثبوت النفقة للولد لأنه فرعها، ثم بالسبب الأبعد. والأصل في ذلك قوله تعالى {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف} [البقرة: 233] مرجع الضمير للوالدات المتقدم ذكرهن".

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ج:4، ص:378، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101432

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں