بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کا میراث کی تقسیم سے پہلے اپنا حصہ بھائیوں کے نام کردینے سے دستبرداری کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کی وراثت میں ایک مکان ہے،  میری چار بہنیں ہے اور ہم دو بھائی ہیں اور ایک والدہ صاحبہ ہے میری جو چاروں بہنیں ہیں ان کی شادیاں ہو چکی ہیں اور ہم دو بھائی سب سے چھوٹے ہیں ہم میں سے کسی کی بھی شادی نہیں ہوئی،  مجھے آپ یہ بتا دیں کہ اگر بہنیں اپنی خوشی سے اور والدہ کی رضامندی سے ہمیں تحریری طور پر ایک اسٹامپ پیپر پر لکھ لکھ دیں کہ یہ والد صاحب کا گھر ان کے نہ ہونے کی صورت میں اپنی والدہ اور بھائیوں کو دیتی ہے اس بارے میں شریعت اور اسلام کیا کہتا ہے یہ جائز ہے؟  کیا ایسا کرنے سے بہنوں کا ہمارے حق میں جائیداد ہبہ کرنا مکمل ہو جائے گا کچھ علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ بہنوں کا حصہ ان کے ہاتھ میں دے اس کے بعد وہ جب واپس کردے ہیں اپنی مرضی سے تو ہی ہبہ  مکمل ہوتا ہوتا ہے کیا تحریری طور پر اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دینے سے بھی ہبہ  مکمل ہو جاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حق وراثت جبری حق ہے جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا، لہذا وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا ، معاف کردینا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائےتو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے  کے بعد اپنا حصہ کسی  کو دینا چاہے  یا کسی کے حق میں دست بردار ہوجائے تو یہ شرعاً جائز اور  معتبر ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بہنیں اپنا حصہ نے ترکہ کی تقسیم سے پہلے اپنے حصے سے دستبردار ہوکر  معاف کردیناچاہتی ہیں، تو تقسیمِ میراث سے پہلے ان کا دست بردار ہونا یا معاف کرنا شرعاً معتبر نہ ہوگا،اور محض سرکاری کاغذات میں ان کے نام کرنے سے قانونی تقاضہ تو پورا ہوجائےگا لیکن قبضہ ثابت کرنے کے لئے شرعاً یہ کافی نہیں ہے، جس کی وجہ سے بھائی پابند ہوں گے کہ اوّلاً وہ  بہنوں کو ان کا شرعی حصہ مکمل ادا کریں، البتہ اگر تقسیم کے بعد حصہ وصول کرنے کے بعد اپنے حصہ سےدست بردار ہوئی ہوں تو اس صورت میں ان کا دست بردار ہونا معتبر ہوگا،پھر اس کے بعد قانونی تقاضہ پورا کرنے کے لئےکاغذات میں بھی بھائیوں کے نام کرسکتی ہیں،نیز بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کو الگ الگ فروخت کر دیں اور  رقم کچھ لے لیں اور باقی قیمت معاف کر دیں ، تو بھی مکان بھائیوں کا ہو جائے گا۔

موسوعۃ الفقہ الاسلامی میں ہے:

"أما ملك الوارث لما فضل من التركة بعد حاجة المورث من التجهيز والدفن وسداد الديون وتنفيذ الوصايا - فأنه يثبت للوارث جبرا عليه وتدخل أموال الميت والحقوق القابلة للانتقال فى ملك الوارث من غير توقف على قبوله ولا يرتد برده. وهذا الملك لا يسقط‍ بالاسقاط‍ مطلقا بالنسبة للاعيان. ويسقط‍ بالاسقاط‍ بالأبراء بالنسبة للديون التى للمورث على الغير.

جاء فى الأشباه والنظائر لابن نجيم : لو قال الوارث تركت حقى لم يبطل حقه اذ الملك لا يبطل بالترك.

وجاء فى تنقيح الفتاوى الحامدية لابن عابدين : اذا أشهد أحد الورثة بأنه ترك حقه من الأرث وأسقطه فهذا الحق لا يسقط‍ بالاسقاط‍ وله المطالبة بحقه من الأرث اذ هو جبرى لا يسقط‍ بالاسقاط‍.

وفى الفتاوى الخيرية: حق الارث لا يقبل الاسقاط‍ .

وفی تكملة رد المحتار :یبطل اقرار انسان بعدد من السهام لوارث أزيد من الفريضة الشرعية لكونه محالا شرعا.أى مخالف للمشروع ومغير له فيكون باطلا .. ومثل ذلك فى الفتاوى الخيرية  من كتاب الاقرار."

(اسقاط، مایعتبر اسقاطہ تغییرا للمشروع، ج:8، ص:،322، اصدار:وزارۃ الاوقاف والشئوون الاسلامیۃ) 

قره عين الأخيار لتكملة رد المحتار علي الدر المختار  میں ہے:

"الارث جبري لَا يسْقط بالاسقاط".

(کتاب الدعویٰ، باب التحالف، ج:8، ص:116، ط:ایج ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"معنى القبض هو التمكين، والتخلي، وارتفاع الموانع عرفا وعادة حقيقة".

(کتاب البیوع، باب بیان رکن البیع، فصل فی الشرط اللذی یرجع الی المعقود علیہ، ج:5، ص:148، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں