بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کا اپنے میراث کے حصے سے بھائیوں کے حق میں دستبرار ہونا


سوال

میری امی کے  سات بہن بھائی ہیں، 4 بہنیں اور  3 بھائی ہیں، جب میرے نانا فوت ہوئے تو انہوں نے ورثہ میں 4 بیٹیاں  3 بیٹے چھوڑے، نانا کے فوت ہونے کے بعد جائیداد نام کی گئی، اور چاروں بہنوں نے اپنی مرضی اور خوشی سے اپنا حصہ بھائیوں کو دے دیا، اب 20 سال بعد میری والدہ کہتی ہیں کہ انہوں نے مجھ سے پوچھ کے زمین نام نہیں کروائی ،بس میرے پاس آ کر انگوٹھے لگوائے ہیں، نہ مجھے یہ بتایا کہ کس چیز کے لیے انگوٹھے لگوا رہےہیں اور نہ ہی میں نے پوچھا، مجھے بعد میں معلوم ہواتھا کہ انگوٹھے کس وجہ سے لگوائے تھے ،باقی تینوں بہنیں کہتی ہیں کہ ہم نے خوشی سے جائیداد دی ہے ،بہنوں کایہ خیال تھا کہ شاید ماں کے حصے میں سے حصہ ملے گا،اس بارے  میں جب انہوں نے اپنی ماں(نانی) سے بات کی تو نانی نے بتایا کہ میرا حصہ بھی انہوں نے نام کروالیا ہے اور نام کرواتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ ہم اپنی بہنوں کو خوش کر دیں گے (مطلب یہ کہ بہنوں کو بھی کچھ پیسے دے دیں گے)، اب جب میری نانی کا انتقال ہوگیا تو بہنوں نے بھائیوں سے حصے کی بات کی ،بھائیوں نے منع کر دیا کہ تمہارا کوئی حق نہیں ہے اور گھر سے نکال دیا ،اس کے بعد بہنوں نے کیس دائر کرنا چاہا ،کیس کے لیے زمین کے سارے کاغذات نکلوائے، تو معلوم ہوا کہ کاغذات کی رو سے بہنیں ماں کے حق میں  اپنے حصے سے اس وجہ سے دستبردار ہوئی  ہیں کہ  ماں نے ہماری پرورش کی ہے،پھر انہی کاغذات کی رو سے ماں (یعنی میری نانی) نے  وہ جائیدادبیٹوں کو ہبہ کی ہے ،ساتھ میں رقم بھی درج ہے  کہ   بیٹوں نے زمین کے بدلے اتنی رقم ماں کو دی ہے، کیا اس صورت میں میری والدہ اور خالہ کا حق باقی رہتا ہے، جب کہ حق مانگنے پر دو خاندانوں کے درمیان دشمنی کی صورت ہوگئی ہے اور یہ ساری کاروائی کاغذات میں کی گئی ہیں،نہ تو جائیداد کی تقسیم ہوئی ہے اورنہ ہی قبضہ دیا گیا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائلہ کا بیان اگر واقعتاً درست ہے کہ  نانا کے انتقال کے بعد جائیداد کی تقسیم سے پہلے ہی کاغذات کے ذریعے ان  کی بیٹیاں ،بیٹوں کے حق میں   اپنے حصے سے دستبردار ہوئیں ، تو شرعا ایسی دستبرداری کا کوئی اعتبار نہیں ، نانا کی طرف سے ملنے والے حصہ پر بیٹیوں کی ملکیت بدستور  برقرار ہے ، لہذا نانا کے بیٹوں پر لازم ہےکہ وہ اپنی بہنوں کو ان کا شرعی حصہ دیں۔

باقی نانی کا جو حصہ بیٹوں کے اپنے نام کرا لیا تھا اگرچہ نانی کو بتایا تھا تو اس صورت میں بھی صرف کاغذات میں نام کروانے سے نانی کا حصہ بیٹوں کی ملکیت نہیں بنا تھا ،نانی کی ملکیت بدستور اپنے حصے پر برقرار تھی، لہذا ان کے انتقال کے بعد ان کاحصہ ان کا ترکہ شمار ہو کر تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہوگا۔لہذا نانی کے بیٹوں پر لازم ہوگاکہ وہ نانا کی میراث کی طرح نانی کی میراث میں بھی اپنی بہنوں کا حصہ دیں۔اور جائیداد کی اس تقسیم کو کسی دشمنی کاذریعہ بناکراپنی آخرت خراب نہ کریں۔

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك۔"

(الفن الثالث  الجمع والفرق،ما یقبل الإسقاط من الحقوق:272 ،ط:دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں  ہے:

"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط۔"

(مطلب : واقعة الفتوی ج:7،ص:505،ط:دارالفکر)

وفیہ أیضا:

"ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه لأن الإرث جبري لا يصح تركه۔"

(كتاب الدعوىباب دعوی النسب:ج:8،ص:89،ط:دارالفکر)

وفیہ أیضا:

" (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل ....(في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم۔"

(كتاب الهبة:5/ 690،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں