بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باہمی رضا مندی سے تقسیم کرنے کے بعد ختم کرنے کا حق نہیں


سوال

1۔میری نانی جب فوت ہوئی تو اس کی چار اولادتھی ، 2 بیٹیاں اور 2بیٹے، نانا نے دوسری شادی کرلی ، اس بیوی سے 5 بیٹے اور 2بیٹیاں ہیں۔

2 .نانا کو اپنی  اولاد ميں سے  کسی پر بھروسہ نہیں تھا تو اس نے اپنی زمین اپنی بیوی کے نام منتقل کر دی کہ کہیں اس کی اولاد اس زمین کو فروخت نہ کردیں،  2011 میں نانا کا انتقال ہو گیا۔

3.ابھی جو سوتیلی نانی ہے اس نے باہمی  رضامندی سے  زمین   فروخت کر دی، اور جو رقم ملی ، اس میں اپنا 1/8واں حصہ نکال کر وہ رقم  سب اولاد میں شرعی طور پر  برابر تقسیم کر دی اور اسٹامپ پیپر بطورِ  رسید لکھ دیا۔

4۔ابھی مسئلہ یہ بن گیا کہ اچانک نانی نے سب کو پیغام بجھوادیا کہ ساری رقم واپس کرو، میں نہیں دینا چاہتی، جب کہ ابھی سب کے پاس رقم موجود نہیں ہے۔

5۔اور زیادہ  مسئلہ یہ ہے کہ ڈر اس بات کا ہے کہ زمین سوتیلی ماں کے نام تھی، اب اگر رقم واپس بھی ہو جائے تو خدشہ ہے کہ پہلی بیوی کی 4 اولاد کو کچھ نہ ملے، براہ مہربانی کوئی راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ    تمام  ورثاء نے باہمی رضا مندی سے زمین فروخت کرکے رقم   تقسیم کی  ہے تو  سائل کی سوتیلی نانی کے لیے تقسیم ختم کرنے کا کہنا اور ورثاء سے رقم  واپس کرنے کا کہنا درست نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويستحق الإرث)...بأحد ثلاثة (برحم ونكاح) صحيح فلا توارث بفاسد ولا باطل إجماعا (وولاء)...(قوله والمستحقون للتركة عشرة أصناف) جمعها العلامة محمد بن الشحنة على هذا الترتيب في منظومته الفرضية التي شرحها شيخ مشايخنا الفقيه إبراهيم السائحاني فقال:يعطى ذوو الفروض ثم العصبه … ثم الذي جاد بعتق الرقبه...ثم الذي يعصبه كالجد … ثم ذوو الأرحام بعد الرد...ثم محمل ورا موال … ثم مزاد ثم بيت المال."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:762، ط: سعيد)

وفیه أیضا:

"لأن الترکة في الاصطلاح ما ترکه المیت من الأموال صافیًا عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال."

(کتاب الفرائض،ج:6، ص:759، ط:سعيد)

وفیه أیضاً:

"تتم القسمة بإجراء الإقتراع كاملا..لا يسوغ الرجوع عن القسمة بعد تمامها."

(كتاب القسمة، الفصل السابع في فسخ القسمة و اقالتها،  المادة:1156، 1167، ج:1، ص:506،  ط:رشدية)

وفیه أیضاً:

"أعیان المتوفیٰ المتروکة عنه مشترکة بین الورثة علی حسب حصصهم."

(الكتاب العاشر في انواع الشركات، الفصل الثالث في الديون المشتركة،ج:1، ص:484، رقم المادۃ: 1092، ط:رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں