بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باہر ملک میں مدت سے زیادہ رکنے پر ملازمت کاحکم


سوال

کسی ملک میں وزٹ پر چلے جائیں  اور ادھر وزٹ کے دن پورے ہوجائیں اور پھر بھی ادھر کام کریں تو وہ مزدوری کرنا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے ملک جاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس ملک کے  جائز   قوانین  جو شریعتِ اسلامیہ کے مخالف نہ ہوں، ان کی پاسداری کرے، جن قوانین میں کسی  مباح چیزوں سے روکا گیاہے اور اس میں عوام کا فائدہ ہے  تو اس کی پاسداری بھی لازم ہے، اسی طرح اگر اس کام کی وجہ سے گرفتاری  کاخدشہ ہو تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے؛  تاکہ عزت نفس مجروح نہ ہواور  بےعزتی بھی نہ ہو،باقی  اس دوران جائز کام کرنے سے جو رقم ملے گی وہ  حلال ہوگی۔ 

کنز العمال میں ہے :

'' الوضين بن عطاء عن يزيد بن مرثد عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل لمؤمن أن يذل نفسه. قيل: وما إذلال نفسه يا رسول الله؟ قال: يعرض نفسه لإمام جائر''. السلفي في انتخاب حديث الفراء''.

(الاخلاق المذمومۃ،802/3،مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی  میں ہے:

"والخاص لا يمكنه أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة للمستأجر والأجر مقابل بالمنافع ولهذا يبقى الأجر مستحقا وإن نقض العمل."

(کتاب الاجارۃ،باب ضمان الاجارۃ،64/6،سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"والأجرة إنما تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل."

(کتاب النکاح ،باب المہر،156/3،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں