بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائیوں کا مشترک گھر خریدنا


سوال

ہم چار بھائیوں نے پیسے ملا کر 38 ہزار کی زمین خریدی تھی ،جس میں سے میرے دس ہزار تھے ،اس کے بعد جب میری شادی ہوئی تو میں وہاں سے چلا گیا ،دس بارہ سال بعد مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہوئی تو میں نے والدہ سے دس ہزار مانگے ،والدہ نے مجھے دے دیے ،واضح رہے کہ یہ پیسے مجھے والدہ نے ویسے میری ضرورت کی بنا پر دیے تھے ،قرض بھی نہیں تھے ،جس طرح ماں بیٹے کو پیسے دیتی ہے اسی طرح دیے تھے، آج سے چار سال قبل میں نے اس گھر میں اپنا حصہ مانگا ،اور گھر کی قیمت ابھی تقریباً چالیس لاکھ ہے تو بھائیوں نے کہا کہ ہم نےآپ کو والدہ کے ہاتھ دس ہزار دے چکے ہیں ،جب کہ میں نے وہ والدہ سے مانگے تھے ،بھائیوں سے تو میری کچھ بات ہوئی بھی نہیں  تھی اور والدہ کا تو اس گھر میں حصہ بھی نہیں ہے ،اور نہ والدہ نے مجھ سے کوئی بات کی ،میں نے بھائیوں سے کہا کہ اگر مجھے اس وقت اپنا حصہ ہی مانگنا ہوتا تو میں دس ہزار کیوں مانگتا اس وقت جو میرا حصہ تھا وہی مانگتا ،کیوں کہ اس وقت گھر کی قیمت بھی کافی تھی ۔سوال یہ ہے کہ اس گھر میں میرا حصہ بنتا ہے یا نہیں اور کتنا بنتا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں چوں کہ سائل کے بھائیوں کو سائل کی بات سے اتفاق نہیں ہے ،اور ان کا بیان یہ ہے کہ سائل کو  ہم والدہ کے ہاتھ اس کے دس ہزار   دے کر فارغ کر چکے ہیں تو اس صورت میں سائل کے بھائی اگر  دو گواہوں کے ذریعہ اس بات کو ثابت کر دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے بھائی(سائل)کو اس کے دس ہزار روپے جو اس نے مذکورہ مکان خریدتے وقت  دیے تھے وہ سائل کو  والدہ کے ہاتھ اس بات کے معاہدے کے ساتھ  دے دیے ہیں کہ سائل مذکورہ مکان سے   دست بردارہو جائے گا،اور سائل مذکورہ گھر میں اب شریک نہیں    تو اس صورت میں   سائل مذکورہ زمین یا گھر میں حصے  کا حق دارنہیں  ہو گااور  اگر بھائی گواہ پیش نہ کر سکے تو پھر سائل پر  قسم آئے گی یعنی سائل اس بات پر قسم کھائے گا کہ اللہ کی قسم میں نے یہ رقم بطور دست برداری کے نہیں لی ہے،اور بھائیوں سے میرا اس وقت کوئی معاہدہ بھی نہیں ہوا تھا، قسم کھا لینے کے بعد سائل مذکورہ  زمین یا گھر میں حصے کا حق دار ہو گا ، اور اگرسائل  قسم کھانے سے   انکار کر دیتا ہے تو پھر اس صورت میں سائل  مذکورہ  زمین یا گھر میں حصے  کا حق دار نہیں ہو گا ۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"(‌والمدعي ‌من ‌إذا ‌ترك ترك والمدعى عليه بخلافه) أي لا يترك إذا ترك بل يجبر هذا لمعرفة الفرق بينهما وهي من أهم ما ينبني عليه مسائل الدعوى.وقد اختلفت عبارات المشايخ في حده فمنها ما ذكر هنا وهو حد صحيح لكونه جامعا للمحدود مانعا من دخول غيره فيه وقيل المدعي من لا يستحق إلا بحجة كالخارج والمدعى عليه من يستحق بقوله من غير حجة كصاحب اليد وقيل المدعي من يلتمس غير الظاهر والمدعى عليه من يتمسك بالظاهر وقيل المدعي من يشتمل كلامه على الإثبات فلا يصير خصما بالتكلم في النفي."

(کتاب الدعوی ،ج:4،ص:291،ط:المطبعۃ الکبری )

الدر المختار میں ہے:

"(والمدعي من إذا ترك) دعواه (ترك) أي لا يجبر عليها (والمدعى عليه بخلافه) أي يجبر عليها."

(کتاب الدعوی ،ج:5،ص:542،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں