1۔خالد قسطوں کا کاروبار کرتا ہے، کبھی کبھی کوئی بندہ خالد کے پا س قرض مانگنے آتا ہے، تو خالد اُسے کہتاہے کہ میں آپ کو قرض تو نہیں دے سکتا، البتہ میں آپ کو چند موبائل قسطوں پر فروخت کر دیتا ہوں، جن کی قسطیں آپ مجھے دیتے رہنا، اور آپ اسے فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کر لینا۔
کیا سود سے بچنے کے لیے یہ حیلہ اختیار کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
2۔ مشتری بائع کے پاس جاکر کہتا ہےکہ مجھ پر سودی قرضہ ہے آپ مجھے کوئی چیز دلا دو، تاکہ میں اسے بیچ کر اپنا قرض ادا کرسکوں، میں آپ کو قسطوں میں اس کی قیمت ادا کردوں گا۔
3۔مشتری دکاندار سے نقد رقم ادھار مانگتاہے، اور دکاندار اسے منع کردیتا ہے، پھر کہتاہے کہ مجھے کوئی چیز دلا دو ، تاکہ میں اسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کروں۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
4۔بائع کے پاس گاہک آکر کوئی چیز مانگتا ہے؛جیسے موبائل اور بائع کے پاس موبائل موجود نہیں ہوتا، بائع مشتری سے کہتاہےکہ میں بیس ہزار والا موبائل چالیس ہزار روپے میں آپ کو فروخت کروں گااور کبھی مشتری سے ایڈوانس پیسے بھی لے لیتا ہے۔کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟
1۔2۔3۔واضح رہے کہ جس شخص کو پیسوں کی ضرورت ہو، اور وہ نقد رقم قرض کے طور پر کسی سے حاصل کرنے کا خواہش مند ہو، اور مذکورہ شخص نقدی کے بجائے قسطوں پر اسے کوئی چیز فروخت کردے، تاکہ وہ شخص مذکورہ چیز مارکیٹ میں فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کر لے، اسے اصطلاح شرع میں بیع عینہ کہا جاتا ہے، جوکہ سود خوری کاایک حیلہ ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لہٰذا سائل نے جتنی صورتیں بیان کی ہیں، وہ سب ناجائز ہیں، جن سے بچنا نہایت ضروری ہوگا۔
4۔اگر بائع کے پاس موبائل موجود نہ ہوتو بائع کے لیے ملکیت میں آنے سے پہلے پہلے موبائل کا سودا کرنا جائز نہیں ، البتہ بائع اس طور پر وعدہ بیع کر سکتا ہے کہ فی الحال موبائل میرے پا س موجود نہیں ہے لیکن میں آپ کو اس طرح کا موبائل لا کر اتنی قمیت میں دے دوں گا، اور مشتری اپنی خوشی سے ایڈوانس رقم بھی ادا کردے تو موبائل خرید کر اسے فروخت کرناجائز ہوگا، تاہم اس صورت میں یہ عقد لازم نہیں ہوگا اگر بعد میں مشتری موبائل لینے سے انکار کردے تو بائع اس کو لینے پر مجبور نہیں کر سکتا اور بائع پر اس کی ایڈوانس دی ہوئی رقم واپس کرنا لازم ہوگا۔
سنن ابی داؤد میں ہے :
"عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا تبايعتم بالعينة ، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد، سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم".
(كتاب البيوع، أبواب الإجارة، باب في النهي عن العينة، ج : 3، ص : 274، ط : المكتبة العصرية)
فتاویٰ شامی میں ہے :
"(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط،..... وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال - عليه الصلاة والسلام - «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم."
(كتاب البيوع، باب الصرف، مطلب في بيع العينة، ج : 5، ص : 273، ط : سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604102552
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن