بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

باہمی تعان کے لیے وقف کمیٹی تشکیل دینے کی ایک صورت کا حکم


سوال

چند افراد نے مل کر ہمدردی اور احسان کی بنا پربرادری سطح پر ویلفیئر ٹرسٹ کمپنی کےنام سےوقف فنڈ پول قائم کیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اس  وقف فنڈ  سے تمام ممبران حضرات میں سے کسی کو بھی غمی یا خوشی کے موقع پر فنڈ ضرور ہو تو کمیٹی اس متاثر ممبر کو اس وقف فنڈ سے رقم ادا کرے گی ،لیکن ویلفیئر ٹرسٹ کمیٹی نے درج ذیل کچھ شرائط بھی رکھی ہیں:

1۔ اس کمیٹی کامقصد صرف ممبران کی خدمت ہے او ر اس کا کوئی سیاسی  مقصد نہیں ہےتو کیا یہ مثبت اقدام ہے؟

2۔ کمیٹی کے تمام امور وقف کے اصولوں پر قائم ہیں، تو کیا یہ قابلِ قبول ہے؟

3۔ اراکین جو چندہ دیتے ہیں وہ وقف کی نیت سے دیتےہیں اور اس  نیت سے کہ یہ رقم کمیٹی کے مقاصد کے لیے خرچ ہوگی ، کیا یہ شرعاً جائز ہے؟

4۔ اگر اراکین اس بات پر راضی ہیں کہ وہ جو چندہ دیتے ہیں وہ وقف کی نیت سے دیتے ہیں اور اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کریں گے تو کیا یہ اصول شرعی لحاظ سے درست ہے؟

5۔اگر کمیٹی کی خدمات صرف ان اراکین کے لیے مخصوص ہوں جو باقاعدگی سے چندہ جمع کراتےہیں،جو چندہ نہیں دے گا وہ اس کمیٹی سےفائدہ نہیں اٹھاسکتا اور اس بارے میں اراکین کو پہلے سے آگاہ کیا گیا ہو، تو کیا یہ جائز ہے؟

6۔اگر کمیٹی غمی یا خوشی کے موقع پر اراکین کی مالی مدد کرتی ہےاور اس کے لیے مخصوص رقم مختص کی جاتی ہے،کیا یہ بھی شرعی اصولوں کے مطابق ہے؟

7۔ کمیٹی کا ہر ممبر ابتدائی 1000روپے اور ماہانہ 300 روپے چندہ جمع کرے گا، کیا یہ صورت جائز ہے؟

8۔متاثر شخص کو ملنے والی رقم جمع کرائی گئی رقم سے کم یا زیادہ ہوسکتی ہے،کیا یہ درست ہے؟

اگر ویلفیئر ٹرسٹ کمیٹی کے تمام مذکورہ امور اور شرائط کے مطابق ہیں،تو یہ کیا کمیٹی شرعی اصولوں کے مطابق جائز ہےاور اس کے قیام اور عمل پر کوئی اعتراض ہے؟شرعاًیہ شرائط  یا کوئی ایک شرط ناجائز ہیں تو اس کا متبادل کیا ہوگا؟ وضاحت فرمادیجئے گا۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ کمیٹی    درج ذیل چند شرعی قباحتوں اور خرابیوں پر مشتمل ہے :

1۔کمیٹی کے ممبر پر یہ لازم کرناکہ ابتدائی  1000 روپے اور ماہانہ 300 روپے ادا کرے گا،یہ قید لگانا شرعاً درست نہیں ہے ،کیوں کہ اس میں تبرع واحسان والے عمل کو کسی پر واجب کرنا لازم آرہاہے،جس میں کبھی کسی ممبر کی رضامندی نہیں ہوتی، لیکن خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے،اس لیے یہ شرط لگا نا جائز نہیں ہے۔

2۔وقف  کمیٹی کا اپنے چندہ دینے والے  ممبران کو سہولیات فراہم کرنا،یہ وقف علی النفس  ہے اور نقود کے وقف کرنے کی صورت میں وقف علی النفس جائز نہیں ہے  ۔

3۔سہولیات کا ممبر کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ملنا، یہ  قمار(جوا)ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔

لہذا اس طرح کے کمیٹی اور انجمن بنانے اور اس کا ممبر بننے سے اجتناب لازمی ہے، البتہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے بغیر وقف ایک  رفاہی انجمن یا کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے اور  یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کے لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے،قطع نظر اس بات کہ کس نے چندہ دیا اور کس نے نہیں دیا  تو یہ شرعًا  درست ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثانی، ج: 2، ص: 889، رقم: 2946، ط:المكتب الإسلامي)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ  میں ہے:

"وفي موضع آخر من الوقف من فتاوى الشلبي المذكور ما نصه: فإذا كان وقف الدراهم لم يرو إلا عن زفر، ولم يرو عنه في وقف النفس شيء فلا يتأتى وقفها على النفس حينئذٍ على قوله، لكن لو فرضنا أن حاكماً حنفياً حكم بصحة وقف الدراهم على النفس هل ينفذ حكمه؟ فنقول: النفاذ مبني على القول بصحة الحكم الملفق، وبيان التلفيق أن الوقف على النفس لايقول به إلا أبو يوسف، وهو لايرى وقف الدراهم، ووقف الدراهم لايقول به إلا زفر، وهو لايرى الوقف على النفس، فكان الحكم بجواز وقف الدراهم على النفس حكماً ملفقاً من قولين، كما ترى وقد مشى شيخ مشايخنا العلامة زين الدين قاسم في ديباجة تصحيح القدوري على عدم نفاذه، ونقل فيها عن كتاب توفيق الحكام في غوامض الأحكام: أن الحكم الملفق باطل بإجماع المسلمين. ومشى الطرسوسي في كتابه أنفع الوسائل على النفاذ مستنداً في ذلك لما رآه في منية المفتي، فلينظره من أراده اهـ".

(کتاب الوقف،ج: 1، ص: 109، ط: دار المعرفة)

       فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

 ( کتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 403، ط : سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601102542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں