بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بحالتِ روزہ کتنی مقدار کھانا یا نگلنا جائز ہے؟ اور چنے کی مقدار سے کیا مراد ہے؟


سوال

روزے کی حالت میں کتنی مقدار میں پیٹ میں چیز چلی جائے تو روزہ ٹوٹے گا؟ چنے کی مقدار کے برابر کا مطلب کیا ہے؟ چنے مختلف  سائز کے ہوتے ہیں، بالکل چھوٹا سا چنا بھی ہوتا ہے اور کافی بڑے چنے بھی ہوتے ہیں۔

جواب

           واضح رہے کہ روزے کی حالت  میں جان بوجھ کر کسی بھی مقدار میں  باہر سےکسی چیز کا کھانا روزے کو توڑ دیتا ہے اگرچہ وہ تل کے برابر ہو ، الا یہ کہ تل  یا اس جیسے چھوٹی چیز کو اتنا چبائے کہ اس کے اجزا منہ میں گم ہوجائیں۔ اور  اگر کھانے  کے کچھ ذرات   دانتوں کے درمیان پھنسے ہوئے  ہوں  تو  اس کےکھانے  یا نگلنے کی صورت میں درمیانے سائز کےچنے کی مقدار سے کم تک تو معاف ہے اور اس کے  کھانے یا نگلنے سے روزہ نہیں  ٹوٹے گا بشر طیکہ اسے منہ سے نہ نکالا گیا ہو، البتہ درمیانےچنے کی دانے کے بقدر یا اس سے بڑے سائز کے ذرات کے کھانے یا نگلنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا ۔

         فقہائے کرام نے دانتوں کے درمیان پھنسے  ہوئےذرات سے متعلق مقدار ِقلیل و  کثیر کی پہچان   کے لیے چنے کےدانے کااعتبار کیا ہے   ،اس سے مراد  وہ مقدار ہے جو تھوک  یا کسی اور مائع  چیز کے بغیر نہ نگلا جا سکے ۔ اور چنے کا وہ سائز معتبر ہے جو بازار میں عام  دستیاب چنوں میں درمیانے سائز کا ہو ۔

                                                 فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو أكل لحما بين أسنانه) إن (مثل حمصة) فأكثر (قضى فقط وفي أقل منها لا) يفطر (إلا إذا أخرجه) من فمه (فأكله) ولا كفارة لأن النفس تعافه (وأكل مثل سمسمة) من خارج (يفطر) ويكفر في الأصح (إلا إذا مضغ بحيث تلاشت في فمه) إلا أن يجد الطعم في حلقه كما مر واستحسنه الكمال قائلاوهو الأصل في كل قليل مضغه۔"

(‌‌كِتَابُ الصَّوْمِ،بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّوْمَ وَمَا لَا يُفْسِدُهُ،ج:2،ص:415،ط:سعید)

       بحر الرائق میں ہے:

"(قوله أو أكل ما بين أسنانه) أي لا يفطر؛ لأنه قليل لا يمكن الاحتراز عنه فجعل بمنزلة الريق، ولم يقيده المصنف بالقلة مع أن الكثير مفسد موجب للقضاء دون الكفارة عند أبي يوسف خلافا لزفر لما أن الكثير لا يبقى بين الأسنان، وهو مقدار الحمصة على رأي الصدر الشهيد أو ما يمكن أن يبتلعه من غير ريق على ما اختاره الدبوسي واستحسنه ابن الهمام وما دونه قليل، وأطلقه فشمل ما إذا ابتلعه أو مضغه، وسواء قصد ابتلاعه أو لا كما في غاية البيان وقيد بأكله؛ لأنه لو أخرجه ثم ابتلعه فسد صومه كما لو ابتلع سمسمة أو حبة حنطة من خارج لكن تكلموا في وجوب الكفارة والمختار الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان، وهو الصحيح كذا في المحيط بخلاف ما لو مضغها حيث لا يفسد؛ لأنها تتلاشى إلا إذا كان قدر الحمصة فإن صومه يفسد، وفي الكافي في السمسمة قال إن مضغها لا يفسد إلا إن وجد طعمها في حلقه قال في فتح القدير، وهذا حسن جدا فليكن الأصل في كل قليل مضغه"۔

(بحر الرائق ،ج:2،ص:294،طبع:دار الکتب الاسلامی)

مجمع الانھر میںہے :

"(وإن ابتلع) الصائم (ما بين أسنانه) مما يؤكل (فإن كان) ما ابتلعه (قدر الحمصة قضى، وإن كان دونها لا يقضي) .

وقال زفر يقضي؛ لأن الفم له حكم الظاهر ولهذا لا يفسد الصوم بالمضمضة وأجيب بأن القليل يبقى عادة بين الأسنان فيكون تابعا للريق بخلاف الكثير والفاصل بينهما قدر الحمصة لكن في الفتح إن لم يمكنه الابتلاع بلا استعانة البزاق فهو علامة القلة، وإلا فعلامة الكثرة.

وقال وهو حسن، وذكر وجهه لكن لا كفارة في قدر الحمصة عند أبي يوسف؛ لأن الطبع يعافه خلافا لزفر.

وفي الفتح والتحقيق أن المفتي في الوقائع لا بد له من ضرب اجتهاد ومعرفة بأحوال الناس وقد عرف أن الكفارة تفتقر إلى كمال الجناية فينظر في صاحب الواقعة إن كان ممن يعاف طبعه ذلك أخذ بقول أبي يوسف وإن كان ممن لا أثر عنده لذلك أخذ بقول زفر (إلا إذا أخرجه) أي ذلك القليل من فيه (ثم أكله) فإنه يقضي فقط بلا خلاف"۔

(مجمع الانھر؛ کتاب الصوم  ۔ ص:246 ۔ ج:1)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں