بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہادری، غیرت وغیرہ سے متعلق جامع دعاء


سوال

"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَ أَعُوذُ بِكَ  مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ ... إلخ"

مذکورہ دعا   میں بزدلی وغیرہ سے پناہ مانگی گئی ہے۔ مجھے قرآن و حدیث دونوں سے ،یا صرف حدیث سے کوئی ایسی مستند و جامع دعا بتادیں جس میں اللہ  تعالی سے بہادری، غیرت، عزت، حیا، قوت و طاقت، رعب و دبدبہ، غالب  و طاقت ور اور بارعب (رعب دار) ہونے کا سوال کیا گیا ہو۔

جواب

۱۔سوال میں آپ نے بہادری، غیرت وغیرہ امور سے متعلق   جامع دعاء کے  بارے میں دریافت کیا ہے، اس طرح کی کوئی  دعاء تو ہمیں نہیں مل سکی  جو صرف  مذکورہ امور کی جامع ہو۔البتہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی  جامع دعاء سکھائی ہےجو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مانگی ہوئی تمام دعاؤں کو جامع ہے،یہ دعاء کتبِ احادیث میں سے اولاً "سنن الترمذي"میں  مذکور ہے۔بعد ازاں  کتبِ احادیث میں سے "جامع الأصول"، "كنز العمال"، "جامع الأحاديث"، "جمع الجوامع"،اور کتبِ اَدعیہ میں سے"الأذكار النووية"، "سلاح المؤمن في الدعاء والذكر"، "تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين"وغیرہ میں بحوالہ"سنن الترمذي"میں  مذکور ہے۔"سنن الترمذي" کی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا محمّد بن حاتمٍ، قال: حدّثنا عمّار بن محمّدٍ ابنُ أخت حدثنا محمّد بن حاتمٍ، قال: حدّثنا عمّار بن محمّدٍ ابنُ أخت سُفيان الثوريِّ، قال: حدّثنا ليثُ بن أبي سُليمٍ عن عبد الرحمن بن سابطٍ عن أبي أُمامة-رضي الله عنه-، قال: دعا رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم- بِدعاءٍ كثيرٍ لَمْ نَحفظْ منه شَيئاًَ، قُلنا: يَا رسولَ الله!دَعوتَ بِدعاءٍ كثيرٍ لَمْ نَحفظْ منه شَيئاً، فقال: ألا أدلُّكم على ما يجمعُ ذلك كلَّه، تقولُ: اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ البَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".

(سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب(بدون الترجمة)، 5/537، رقم:3521، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)

ترجمہ:

’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سی دعائیں مانگیں ، لیکن ہم(میں سے بعض  ) کو ان میں  سےکچھ  بھی یاد نہیں رہیں ، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!آپ  نےتو بہت سی دعائیں مانگی ہیں ، لیکن ہمیں  ان میں سے کوئی یاد نہیں رہی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمہیں ایسی دعا نہ بتادوں جو  (میری مانگی ہوئی )ان سب دعاؤں کو جامع ہو ؟!تم یوں کہاکرو:" اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ البَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"(ترجمہ:اے اللہ! ہم تجھ سے مانگتےہیں وہ سب اچھی اچھی باتیں  جو تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے مانگی ہیں، اور ان تمام بری بری باتوں کے شر سے پناہ لیتے ہیں  جن سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری پناہ لی ہے، توہی وہ ذات ہے جس سے مدد مانگی جاتی ہے،تیر ا کام  حق پہنچادینا ہے، اور اللہ تعالی کی مدد کے بغیر نہ کسی میں نیکی کرنے کی طاقت ہے، نہ برائی سے بچنے کی  قوت)‘‘۔

علامہ شوکانی رحمہ اللہ"تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين من كلام سيد المرسلين"میں  مذکورہ دعاء کے متعلق لکھتے ہیں:

"ولا شيءَ أجمعُ ولا أنفعُ مِن هذا الدُّعاء؛ فإنّ رسولَ الله -صلّى الله عليه وسلّم- قد صحَّ عنه مِن الأدعية الكثير الطيِّب، وصحَّ عنه مِن التعوُّذ مما ينبغي التعوُّذ منه الكثير الطيِّب حتَّى لَم يبقَ خَيرٌ في الدنيا والآخرة إلّا وقد سألَه مِن ربِّه، ولَم يبقَ شَرٌّ في الدنيا والآخرة إلّا وقد استعاذَه ربَّه مِنه، فَمنْ سأل الله عزَّ وجلَّ مِن خير مَا سألَه منه نبيُّه -صلّى الله عليه وسلّم- واستعاذَ مِن شرٍّ مَا استعاذَ منه نبيُّه -صلّى الله عليه وسلّم- فَقد جاء في دُعائِه بِما لا يحتاجُ بعدُ إلى غيرِه، وسأله الخيرَ على اختلافِ أنواعِه، واستعاذَ من الشّرِّ على اختلافِ أنواعِه، وحظَى بِالعمل بِإرشادِه -صلّى الله عليه وسلّم- إلى هذه القولِ الجامعِ والدعاءِ النافعِ".

(تحفة الذاكرين، فضل سورتي الفلق والناس، ص:458-459، ط: دار القلم-بيروت)

ترجمہ:

’’اس دعاء سے زیادہ جامع اور مفید کوئی  چیزنہیں؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی اچھی دعائیں  ثابت ہیں اور بہت  سے  اچھی  معوذات بھی ثابت ہیں، یہاں تک کہ آپ نے دنیاوآخرت کی کوئی خیر نہیں چھوڑی جو اپنے رب سے نہ مانگ لی ہو،  اور نہ ہی دنیا وآخرت کی کوئی شر چھوڑی ہے جس سے اپنے رب سے پناہ نہ  مانگی ہو،جب کوئی شخص اللہ  عزوجل سے  وہ تمام خیریں مانگے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہیں ، او ران تمام شرور سے پناہ مانگے جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے تو اس نے اپنی دعاء میں   وہ  چیز مانگ لی جس کے بعد  مزید کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہی ، اس نے خیر کی تمام ہی  انواع مانگ لیں،اور شر کی تمام ہی انواع (سے پناہ) مانگ لی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے  ارشاد   سے اس  جامع قول اور مفید دعاء  پر عمل    کرنے  کی وجہ سے (ان میں سے ) حصہ  پالیا‘‘۔

۳۔امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث رو ایت کرنے کے بعد اس کا حکم بیان کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

"هَذا حديثٌ حسنُ غريبٌ".

(یعنی یہ حدیث ’’حسن غریب‘‘ ہے)۔

(سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب(بدون الترجمة)، 5/537، رقم:3521، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)

علامہ شوکانی رحمہ اللہ"تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين من كلام سيد المرسلين"میں لکھتے ہیں:

"قال الترمذيُّ بَعد إخراجِه: "حسنٌ غريبٌ" انتهى كلامُ الترمذي. وإنّما لم يُصحِّحه؛ لأنّ في إسنادِه ليثُ بن أبي سُليمٍ، وهو وإنْ كان فيه مَقالٌ، فَقد أخرجَ له مُسلمٌ، وحَديثُه لا يَقصرُ عن رُتبة الحسن".

(تحفة الذاكرين، فضل سورتي الفلق والناس، ص:458، ط: دار القلم-بيروت)

ترجمہ:

’’(امام )ترمذی رحمہ اللہ  اس حدیث کی تخریج کے بعد لکھتے ہیں:"حَسنٌ غَريبٌ"،(امام) ترمذی رحمہ اللہ کا کلام مکمل ہوا۔انہوں نے اسے(’’حسن‘‘ قراردیا) ’’صحیح‘‘ نہیں قراردیا؛ اس لیے کہ اس حدیث کی سند میں ’’لیث بن ابی سلیم‘‘ ہے ، اگر اس کے بارے میں کلام ہے، لیکن (امام) مسلم رحمہ اللہ اسے(صحيح مسلم)میں لائے ہیں،اور اس کی حدیث ’’حسن‘‘درجے سے کم نہیں ہے‘‘۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث ، سند کے ا عتبار سے ’’حسن غریب ‘ ‘ہے اور قابلِ عمل ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں