بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر محرم وشوہر کے عمرہ کرنا


سوال

میری بہن یو کے (u-k) میں رہتی ہے، اس نے مجھے سعودی عرب کا ویزہ بھیجا ہے،اور عمرے کا ٹکٹ بھیجا ہے،بہن اور بہنوئی دبئی میں آئیں گے،اور میں وہاں پر ان کے ساتھ عمرے پر جانا چاہتی ہوں،اب میرے رشتہ دار کہ رہے ہیں ،کہ بغیر محرم کے عمرہ نہیں  ہوتا،جب کہ سعودی حکومت نے محرم کا چکر ختم کیا ہے،اب آپ مجھے بتائیں کہ میں عمرہ کرسکتی ہوں یا نہیں یا پھر دوسری صورت میں زیارت کے لیے جاسکتی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر  اڑتالیس میل (سوا ستتر کلومیڑ) یا اس سے زیادہ مسافت  کا سفرہو تو   جب تک مردوں میں سے اپنا کوئی محرم  یا  شوہر ساتھ نہ  ہو اس وقت تک عورت کے لیے سفر کرنا  جائز نہیں ہے، حدیث شریف  میں  اس کی سخت ممانعت آئی ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں کی مسافت کے بقدر سفر  کرے، مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو۔

بنا بر یں صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے ساتھ محرم نہیں اور بہنوئی چونکہ  سائلہ کے لیے غیر محرم ہے ،تو  سائلہ کےلیے   محرم کے بغیر عمرے کے لیےاسی طرح زیارت کے لیے  جانا   جائز نہیں ہے، تاہم  اگر وہ بغیر محرم کے جا کر عمرہ کریں گی  تو عمرہ ادا ہو جائے گا، البتہ بغیر محرم کے سفر کا گناہ ہو گا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»."

(الصحیح لمسلم، کتاب الحج، ج:1، ص:433،  ط: قدیمی)

     بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الذي يخص النساء فشرطان: أحدهما أن يكون معها زوجها أو محرم لها فإن لم يوجد أحدهما لايجب عليها الحج. وهذا عندنا، وعند الشافعي هذا ليس بشرط، ويلزمها الحج، والخروج من غير زوج، ولا محرم إذا كان معها نساء في الرفقة ثقات، واحتج بظاهر قوله تعالى:﴿ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلاً﴾[آل عمران: 97]. وخطاب الناس يتناول الذكور، والإناث بلا خلاف فإذا كان لها زاد، وراحلة كانت مستطيعة، وإذا كان معها نساء ثقات يؤمن الفساد عليها، فيلزمها فرض الحج.(ولنا) ما روي عن ابن عباس - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ألا «لا تحجن امرأة إلا ومعها محرم» ، وعن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا تسافر امرأة ثلاثة أيام إلا ومعها محرم أو زوج»؛ ولأنها إذا لم يكن معها زوج، ولا محرم لا يؤمن عليها؛ إذ النساء لحم على وضم إلا ما ذب عنه، ولهذا لا يجوز لها الخروج وحدها. والخوف عند اجتماعهن أكثر، ولهذا حرمت الخلوة بالأجنبية، وإن كان معها امرأة أخرى، والآية لا تتناول النساء حال عدم الزوج، والمحرم معها؛ لأن المرأة لا تقدر على الركوب، والنزول بنفسها فتحتاج إلى من يركبها، وينزلها، ولا يجوز ذلك لغير الزوج، والمحرم فلم تكن مستطيعة في هذه الحالة فلا يتناولها النص".

( کتاب الحج، ج:2، ص:123،  ط: سعید )

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو حجت بلا محرم جاز مع الكراهة (و).....

(قوله مع الكراهة) أي التحريمية للنهي في حديث الصحيحين «لا تسافر امرأة ثلاثا إلا ومعها محرم» زاد مسلم في رواية «أو زوج» ."

(کتاب الحج ، ج:2، ص:465،  ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں