بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بعض علاقوں میں تعزیت کا رائج طریقہ


سوال

1)   تعزیت کاصحیح طریقہ کیا ہے ؟

2)ہمارے علاقے میں تعزیت کا یہ طریقہ ہے ،کہ تعزیت کے لیے آنے والا  ہر شخص جب تعزیت گاہ پر (حجرہ وغیرہ )پہنچ کر  بیٹھ جاتا ہے  تو  کہتا ہے کہ میت کے حق میں دعا کر دیں،سب ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے ہیں،پھر جب جاتے ہیں پھر کچھ بلند آواز سے کہتا ہے کہ میت   کے حق میں ایک  دعا  اور کردے  پھربیٹھے ہوئے سارےلوگ ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے ہیں ،دوسری دعا در حقیقت میں اپنی رخصتی کے لیے ہوتا ہے  کیا تعزیت کا یہ طریقہ  بھی صحیح  ہے؟

3)عورتیں گھر میں تعزیت کے لیے بیٹھتی ہیں اور دور دور سے عورتیں آتی ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟

4) تیسرے روزبعد از عصر اور بعض جگہ قبل از عصر  ایک مولوی صاحب آکر بیان کرتے ہیں بیان ختم ہونے کے بعد مولوی صاحب ہاتھ اٹھا کر  دعا کرتے ہیں ، جیسے ہی  مولوی صاحب ہاتھ نیچے کرتے ہیں کسی طرف سے آواز آتی ہے کہ ایک مرتبہ پھر دعا کرے    اسی طرح پھر سارے لوگ ہاتھ اٹھاکر  کر دعا کرتے ہیں،اسی  بیان کے دوران  لوگ  تعزیت کے لیے بھی آتے ہیں اور دینی بات کٹتی رہتی ہے ،کیا اس طرح کرنا درست ہے ؟

5)آخر میں  خاندان کا بڑا تعزیت میں آنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہےاور یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو اس طرح زینت دے جس طرح آپ  نے ہماری تعزیت کو زینت بخشی ۔

6) تعزیت کے لیے تین دن تک چٹائیوں پر بیٹھنا اور اس کے بعد چار دن تک چارپائیوں پر بیٹھناشرعاً کیسا ہے؟

جواب

1)تعزیت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس گھر میں غمی ہو ان کے پاس جا کر میت کے متعلقین کو تسلی دے، ان کے ساتھ اظہارِ ہم دردی کرے، اور صبر کے فضائل اور اس کا اجرو ثواب سنا کر ان کو صبر  کی ترغیب دے اور ان کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ خود بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی نصیحت کرتے اور ترغیب دیتے تھے۔

2)لیکن دورانِ تعزیت بار بار ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا جو طریقہ آج کل رائج ہے اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، باقی تعزیت کے وقت میت  کے ایصال ثواب کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز اور درست ہے، تاہم بار بار ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا محض ایک رسم ہے، اس کا ترک ضروری ہے۔

3) قریبی رشتہ دار عورتوں کا میت کے  گھر  تعزیت کے لیے آنے  میں بے پردگی اور فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو   اور  تعزیت کے لیے بیٹھنے کی صورت میں نوحہ ،فریاد رسی اور میت کےبے جا اور مبالغہ آمیز تعریف شامل نہ ہو  تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہے ۔

4)وعظ کرنے میں بذات خود  اگر چہ  کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ اس طرح خاص تیسرے دن  کسی عالم دین کو  تعزیت گاہ پر بلاکر اس سے بیان کرانا شریعت سے ثابت نہیں  ہے ، لہذا اس پر دوام قابل ترک اور التزام   بدعت کے درجے میں ہے۔

5) تعزیت میں آنے والوں کا شکریہ  ادا کرنا تو درست ہے البتہ  تعزیت کے انتظام کو اپنے مفاخر میں شمار کرنا اور یہ کہنا کہ "آپ لوگوں  نے ہماری تعزیت کو زینت بخشی" کہنا درست نہیں ہے ۔

6) تین دن کے بعد تعزیت کرنا درست نہیں ہے لیکن اگر کوئی سفر پر ہو   اور تین کے بعد حاضر ہو نا چاہے تو  اس کا تین دن کے بعد تعزیت کرنا جائزہے   البتہ تین دن کے بعدمستقل طور پر سات دن تک بیٹھنا  جائز نہیں ہے ۔

تعزیت کے وقت یہ الفاظ کہنا مسنون ہے:

"إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَه‘ مَا أَعْطٰی ، وَکُلُّ شَيْءٍ عِنْدَه‘ بِأَجْلٍ مُّسَمًّی".

 تبیین الحقائق میں ہے :

(قوله: لا بأس بتعزية أهل الميت إلخ)، وأكثرهم على أن يعزى إلى ثلاثة أيام ثم يترك لئلا يتجدد الحزن وروى ابن ماجه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال «ما من مؤمن يعزي أخاه بمصيبة إلا كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة». اهـ. أبو البقاء (قوله: وأحسن عزاءك) أي صبرك. اهـ. (قوله:؛ لأنها تتخذ عند السرور إلخ) قال الكمال، وهي بدعة مستقبحة وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة (قوله: ولا بأس بأن يتخذ لأهل الميت إلخ) قال الكمال ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام يشبعهم يومهم وليلتهم. اهـ. (قوله: لقوله عليه الصلاة والسلام «اصنعوا لآل جعفر طعاما») الحديث حسنه الترمذي."

(كتاب الصلاة،باب الجنائز ، فصل تعزية أهل الميت،246/1،ط:دار الكتاب الإسلامي)

 مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

" (وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس منا) أي: من أهل سنتنا وطريقتنا، أو ليس من أئمتنا وأهل ملتنا، والمراد الوعيد والتغليظ الشديد. (من ضرب الخدود) جمعه لمقابلة الجمع بالجمع فإنه من مفرد اللفظ مجموع المعنى. (وشق الجيوب) بضم الجيم وبكسر، وفي معناه طرح العمامة، وضرب الرأس على الجدار، وقطع الشعر. (ودعا بدعوى الجاهلية) أي: بدعائهم يعني: قال عند البكاء ما لا يجوز شرعا، مما يقول به الجاهلية، كالدعاء بالويل والثبور، وكواكهفاه، واجبلاه. (متفق عليه) قال ميرك: ورواه الترمذي والنسائي."

(كتاب الجنائز، باب البكاء على الميت ،الفصل الأول ، 1234/3، ط: دار الفکر )

فتاوی شامی میں ہے:

"الظاهر أن ‌هذا ‌خاص ‌بمن ‌لا ‌قدرة ‌له على فهم الآيات القرآنية والتدبر في معانيها الشرعية والاتعاظ بمواعظها الحكمية، إذ لا شك أن من له قدرة على ذلك يكون استماعه أولى بل أوجب، بخلاف الجاهل فإنه يفهم من المعلم والواعظ ما لا يفهمه من القارئ فكان ذلك أنفع له."

(كتاب الصلاة،فروع أفضل المساجد،663/1،ط: سعيد )

صحیح مسلم میں ہے :

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا عفان ، حدثنا أبان بن يزيد ، (ح) وحدثني إسحاق بن منصور ، - واللفظ له - أخبرنا حبان بن هلال ، حدثنا أبان حدثنا يحيى ، أن زيدا حدثه، أن أبا سلام حدثه، أن أبا مالك الأشعري حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: « ‌أربع ‌في ‌أمتي ‌من ‌أمر ‌الجاهلية لا يتركونهن: الفخر في الأحساب، والطعن في الأنساب، والاستسقاء بالنجوم، والنياحة، وقال: النائحة إذا لم تتب قبل موتها، تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران ودرع من جرب »."

(‌‌كتاب الجنائز،‌‌باب التشديد في النياحة ،45/3،ط:طوق النجاة ،بيروت)

فتاوى عالمگیری میں ہے:

 (ومما يتصل بذلك مسائل) التعزية لصاحب المصيبة حسن، كذا في الظهيرية، وروى الحسن بن زياد إذا عزى أهل الميت مرة فلا ينبغي أن يعزيه مرة أخرى، كذا في المضمرات.ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها وهي بعد الدفن أولى منها قبله وهذا إذا لم ير منهم جزع شديد فإن رئي ذلك قدمت التعزية ويستحب أن يعم بالتعزية جميع أقارب الميت الكبار والصغار والرجال والنساء إلا أن يكون امرأة شابة فلا يعزيها إلا محارمها، كذا في السراج الوهاج.ويستحب أن يقال لصاحب التعزية: غفر الله تعالى لميتك وتجاوز عنه وتغمده برحمته ورزقك الصبر على مصيبته وآجرك على موته، كذا في المضمرات ناقلا عن الحجة.وأحسن ذلك تعزية رسول الله صلى الله عليه وسلم «إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى» ويقال في تعزية المسلم بالكافر أعظم الله أجرك وأحسن عزاءك وفي تعزية الكافر بالمسلم أحسن الله عزاءك وغفر لميتك ولا يقال أعظم الله أجرك وفي تعزية الكافر بالكافر أخلف الله عليك ولا نقص عددك، كذا في السراج الوهاج.ولا بأس لأهل المصيبة أن يجلسوا في البيت أو في مسجد ثلاثة أيام والناس يأتونهم ويعزونهم ويكره الجلوس على باب الدار وما يصنع في بلاد العجم من فرش البسط والقيام على قوارع الطرق من أقبح القبائح، كذا في الظهيرية، وفي خزانة الفتاوى والجلوس للمصيبة ثلاثة أيام رخصة وتركه أحسن، كذا في معراج الدراية."

(الباب الحادي والعشرون في الجنائز،الفصل السادس في القبر والدفن،مسائل في التعزية،167/1،ط:رشیدیه)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601101428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں