بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر قصد و عمل کے جنات کی تسخیر عمل میں آئے تو کرامت کا دعوی کرنے کا حکم


سوال

 مفتی صا حب آپ کےفتوی نمبر : 144402100531 میں آپ نے عرض کیا ہے کہ "خلاصہ یہ ہے کہ جنات کی تسخیر اگر کسی کے لئے بغیر قصد و عمل کے محض من جانب اللہ ہو جائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے تو وہ معجزہ یا کرامت میں داخل ہے۔"

عرض یہ ہے کہ گزشتہ تین سال سے مجھ سے کئی مو من جنات جن میں بڑے بڑے علماء ، چھوٹے بچے ، حتی کہ 3 تابعی جنات بھی شامل ہیں، وہ مجھ سے ملتے رہتے ہیں اور میرا ان سے بہت دیرینہ رشتہ قائم ہے ۔ یہ تمام جنات بغیر کسی عملیات اور چلہ کشی کے میرے ساتھ میری بیوی پر آ کر مجھ سے ملاقات کرتے ہیں۔ میں حسب توفیق ان کی مالی مدد کرتا رہتا ہوں ۔ تاہم آج تک میں نے کسی غلط مقصد کے لئے ان سے کام نہیں لیا نہ وہ ایسا کرتے ہیں۔ لہذا آپ کے فتوی کی روشنی میں کیا یہ مجھ ناچیز کی کرامت کہلائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ کوئی شخص اہل سنت والجماعت کے مسلک و مشرب پر عمل پیراہو، متقی و پرہیزگار ہو ،اور سنت کے مطابق زندگی گزار رہا ہوتو ایسے ولی اللہ کے ہاتھ پر اللہ کے دین کی حفاظت کے اظہار کے لیےجو بھی خرقِ عادت بات ظاہر ہوتی ہے وہ کرامت ہے، اورحقیقت میں خلافِ عقل و خلافِ عادت واقعے کا صدور قدرتِ خداوندی سے ہوتاہے، ولی کا اس میں ذاتی عمل دخل نہیں ہوتا، نہ ہی ولی کا دعویٰ یہ ہوتاہے کہ میں جب چاہوں کرامات دکھا سکتاہوں، نیز کرامات کا اظہار اور  ان کا حصول مقاصد میں سے نہیں ہے، یہ غیر اختیاری امر ہے، بزرگی اور ولایت کا مدار اتباعِ سنت وشریعت ہے۔

اور  اگر کوئی شخص اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھے ہوئے ہو یا سنتِ رسول ﷺ کے خلاف زندگی گزار رہا ہو (خواہ وہ کوئی بھی ہو) اور اس کے ہاتھ پر خلافِ عادت واقعہ ظاہر ہو تو وہ کرامت نہیں، ’’استدراج‘‘  (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل) ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں محض جنات سے تعلق قائم ہو جانا جب کہ اس کا کوئی دینی مقصد نہ ہوکرامت نہیں کہلائےگا۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"وقد سأل نجم الدين عمر النسفي مفتي الإنس والجن عما يحكى أن الكعبة كانت تزور إلخ هل يجوز القول به فقال ‌نقض ‌العادة ‌على ‌سبيل الكرامة لأهل الولاية جائز عند أهل السنة."

(سورة يس، ج: 12، ص: 15، ط: دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: لكن في عقائد التفتازاني جزم بالأول تبعا لمفتي الثقلين النسفي، بل سئل عما يحكى أن الكعبة كانت تزور واحدا من الأولياء هل يجوز القول به؟ فقال: خرق العادة على سبيل الكرامة لأهل الولاية جائز عند أهل السنة، ولا لبس بالمعجزة لأنها أثر دعوى الرسالة وبادعائها يكفر فورا فلا كرامة، وتمامه في شرح الوهبانية من السير عند قوله: ومن - لولي قال طي مسافة يجوز - جهول ثم بعض يكفر وإثباتها في كل ما كان خارقا عن النسفي النجم يروى وينصر أي ينصر هذا القول بنص محمد: إنا نؤمن بكرامات الأولياء.

وفي الرد: أن المعجزة لا بد أن تكون ممن يدعي الرسالة تصديقا لدعواه، والولي لا بد من أن يكون تابعا لنبي وتكون كرامته معجزة لنبيه، لأنه لا يكون وليا ما لم يكن محقا في ديانته واتباعه لنبيه؛ حتى لو ادعى الاستقلال بنفسه وعدم المتابعة لم يكن وليا بل يكون كافرا ولا تظهر له كرامة. فالحاصل أن الأمر الخارق للعادة بالنسبة إلى النبي معجزة، سواء ظهر من قبله، أو من قبل آحاد أمته، وبالنسبة إلى الولي كرامة لخلوه عن دعوى النبوة، وتمامه في العقائد وشرحها.

والحاصل أنه لا خلاف عندنا في ثبوت الكرامة، وإنما الخلاف فيما كان من جنس المعجزات الكبار والمعتمد الجواز مطلقا إلا فيما ثبت بالدليل عدم إمكانه كالإتيان بسورة."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:551،ط:سعيد)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"الكرامة لغة: مصدر كرم، يقال: كرم الرجل كرامة: عز . وفي الاصطلاح: تطلق على عدة معان: فتطلق أولا: بمعنى: ظهور أمر خارق للعادة على يد شخص ظاهر الصلاح غير مقارن لدعوى النبوة والرسالة.

 الاستدراج: ما يظهر من خارق للعادة على يد كافر أو فاسق . والصلة بين الاستدراج والكرامة الضدية من حيث المقصود."

(باب الكرامة، ج:34، ط:216، ط:دارالسلاسل)

وفيه ايضا:

"ذهب جمهور علماء أهل السنة إلى جواز ظهور أمر خارق للعادة على يد مؤمن ظاهر الصلاح إكراما من الله له، وإلى وقوعها فعلا، ويسمى وليا. والولي في هذا المقام: هو العارف بالله تعالى وبصفاته حسب الإمكان، والمواظب على الطاعة المجتنب للمعاصي، بمعنى أنه لا يرتكب معصية بدون توبة، وليس المراد أنه لا يقع منه معصية بالكلية، لأنه لا عصمة إلا للأنبياء.

واستدلوا على جوازها بأنه لا يلزم على فرض وقوعها محال، وكل ما كان كذلك فهو جائز."

(باب الكرامة، ج: 34، ط: 218، ط:  دارالسلاسل)

لوامع الأنوار البهيہ ميں ہے:

"والحاصل أن الأمر الخارق للعادة فهو بالنسبة إلى النبي معجزة سواء ظهر من قبله أو من قبل آحاد أمته، وهو بالنسبة للولي كرامة لخلوه عن دعوى نبوة من ظهر ذلك من قبله، فالنبي لا بد من علمه بكونه نبيا، ومن قصد إظهار خوارق العادات وظهور المعجزات، وأما الولي فلا يلزم أن يعلم بولايته ويستر كرامته ويسرها، ويجتهد على إخفاء أمره كما تقدمت الإشارة إلى ذلك كله الولاية موهبة من الله تعالى غير مكتسبة ولا يصل الولي ما دام عاقلا بالغا إلى مرتبة سقوط التكليف عنه بالأوامر والنواهي."

(فصل في ذكر كرامات الأولياء وإثباتها : 2/ 396 ، ط : مؤسسة الخافقين ومكتبتها - دمشق)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501100022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں