بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر وضو کے قرآن کی تلاوت کرنا


سوال

میں نے پڑھا ہے کہ تلاوت کے لیے وضو لازم نہیں ہے حدیث کے حوالے کے ساتھ کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

قرآنِ کریم کو بغیر وضو کے ہاتھ لگانا  جائز نہیں ہے، البتہ بے وضو ہونے کی حالت میں  قرآنِ کریم کو ہاتھ لگائے بغیر زبانی تلاوت کرنا جائز ہے۔

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب".

( جلد۱، ص: ۱۰۴)

''البحر الرائق''  میں ہے:

"وقوله (ومنع الحدث المس) أي مس القرآن (ومنعهما) أي المس وقراءة القرآن (الجنابة والنفاس)."

(ما يمنعه الحيض، باب الحیض، جلد ۱ ص: ۲۱۳، ط: دارالکتاب الاسلامی)

سنن ابو داود میں ہے:

"حدثنا القعنبي، عن مالك، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب مولى ابن عباس أن عبد الله بن عباس أخبره: أنه بات عند ميمونة زوج النبي - صلى الله عليه وسلم -، وهي خالته، قال: فاضطجعت في عرض الوسادة، واضطجع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأهله في طولها، فنام رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حتى إذا انتصف الليل، أو قبله بقليل، أو بعده بقليل، ثم استيقظ رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فجلس يمسح النوم عن وجهه بيده، ثم قرأ العشر الآيات الخواتم من سورة آل عمران، ثم قام إلى شن معلقة، فتوضأ منها فأحسن وضوءه، ثم قام يصلي۔۔۔۔ الخ."

"ترجمہ: کریب (ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام) عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ وہ ایک شب نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ میمونہ  رضی اللہ عنہا  کے گھر میں رہے اور وہ ان کی خالہ ہیں، ابن عباس کہتے ہیں میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اس کے طول میں لیٹیں، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سو گئے، جب آدھی رات ہوئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس سے کچھ بعد، تو رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم بیدار ہوئے اور نیند میں اپنے چہرہ کو اپنے ہاتھ سے ملتے ہوئے بیٹھ گئے، پھر سورت آل عمران کی آخری دس آیتیں آپ نے پڑھیں، اس کے بعد ایک لٹکی ہوئے مشک کی طرف (متوجہ ہو کر) آپ کھڑے ہو گئے اور اس سے وضو کیا، اس کے بعد نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے، ابن عباس کہتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور جس طرح آپ نے کیا تھا، میں نے بھی کیا، پھر میں گیا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں پہلو میں کھڑا ہو گیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میراداہنا کان پکڑ کر اسے مروڑا اور مجھے اپنی داہنی جانب کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  لیٹ گئے، جب مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور صبح کی نماز پڑھی۔"

(باب فی صلاۃ اللیل ، جلد۲، ص:۵۱۸، ط: دار الرسالۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں