بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر تعین اور الاٹمنٹ کے پلاٹ فروخت کرنے کا حکم


سوال

ہم ملک کے عسکری ادارے DHAکے ساتھ ایک معاہدہ کرنے جا رہے ہیں ،اور اس معاہدہ کے تحت ہم اپنی رقم سے ایک زمین خرید کر  اس عسکری ادارے کو دیں گے، جس پر یہ ادارہ ایک DHAسوسائٹی بنائے گا ۔جس میں مختلف سائز کے رہائشی اور کمرشل پلاٹ  ہوں گے ،اور باہمی معاہدہ کے تحت پوری زمین  ادارے کو منتقل کردی جائے گی ،اور قانونی کاغذی کاروائی کے ذریعہ زمین کی ملکیت بھی ادارے کے نام منتقل کردی جائی گی ،اور وہ ادارہ DHAزمین کی قیمت کے بدلے اسی زمین پر بنائی جانے والی سوسائٹی کے پلاٹ کی کچھ فائل باہمی رضامندی سے ہمیں دے گا ۔مثلاً: اگر ہم نے  دس ہزار(10,000)کنال  زمین عسکری ادارے کو دی تو بدلے میں DHAعسکری ادارہ ہمیں ڈھائی ہزار (2,500) کنال رقبہ کے پلاٹ دے گا ،(ایک ایک کنال کے 2,500پلاٹس)،ہم باہمی رضامندی سے ان 2,500 پلاٹ کے مالک بن گئے ،DHAہمیشہ کی طرح پلاٹ کا نمبر قرعہ اندازی کے ذریعے بعد میں الاٹ کرتا ہے ،جب کہ ہم فائلوں  کو بازار میں فروخت کریں گے ،اور بقیہ پلاٹس وہ ادارہ خود بازار میں فروخت کرے گا یا اپنے عسکری افسران کو الاٹ کرے گا ۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہےکہ تمام فائلوں  پر پلاٹ کا رقبہ تو لکھا جائے گا لیکن پلاٹ کا تعین /نمبر بعد میں الاٹ کیا جائے گا ،یہ ہی DHA ادارے کا طریقہ کار ہے اور یہ ایسا ہی کرتا ہے ،اور جب تمام فائلیں تقسیم ہو جائیں گی تو کچھ عرصہ کے بعد ادارہ قرعہ اندازی  کے ذریعے تمام فائل مالکان کو پلاٹ نمبر جاری کرے گا جو اسی زمین کے کسی بھی حصہ میں ہو سکتا ہے ،یعنی پلاٹ کا تعین /نمبر قرعہ اندازی کے بعد ہوگا اور پلاٹ کی قیمت رقبہ کے حسا ب سے طے ہو گی ۔

سوال نمبر 1: کیا اس طریقے کا معاہدہ کسی عسکری ادارے کے ساتھ کرنا جائز ہے؟اور اس میں کوئی قباحت تو نہیں ہے اگر ہے تو وہ کیا ہے؟

سوال نمبر 2: کیا پلاٹ  کے تعین /نمبر کے بغیر ہمارا اس فائل کو فروخت کرنا جائز ہے؟اور اس فروخت سے حاصل کی گیا نفع جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسؤلہ میں مذکورہ معاہدہ  کسی بھی ادارے کے ساتھ کرنا درج ذیل تین وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے :

1) اس معاہدہ میں ثمن(قیمت) مبیع(زمین) کے بعض حصے کو بنایا گیا ہے جو کہ ناجائز ہے ۔

2)  اس معاہدہ میں ثمن (قیمت)مجھول ہے ،اس لیے کہ   جن2500پلاٹوں کو ثمن بنایا گیا ہے اس کی کیا قیمت ہوگی وہ معلوم نہیں ہے ۔

3) ثمن (ڈھائی ہزار پلاٹ کی جگہ)کی ادائیگی کے وقت کا تعین بھی نہیں کیا گیا کہ کتنے عرصے میں عسکری ادارہ بائع کو قیمت یعنی مذکورہ جگہ ادا کرے گا جو کہ نزاع اور جھگڑے کا سبب بن سکتا ہے۔

اس معاہدہ کی صحیح صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پہلے دس ہزار(10,000)  کنال کی قیمت متعین کر کے مذکورہ ادارہ سے سودا  کر لیں ،اس کے بعد  طے شدہ قیمت کے بجائے ڈھائی ہزار (2500) کنال زمینDHAسے اپنے ثمن کے بدلے میں لے لیں ۔

2)ہاؤسنگ سوسائٹی والوں کی طرف سے جس خریدار کے نام پلاٹ کی الاٹمنٹ کی جاتی ہے٬ اس کے نام فائل کردی جاتی ہے٬ اس خریدار کیلئے اس پلاٹ کی فائل کو آگے بیچنے کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر سودے کے دوران اس پلاٹ کو متعین کر کے اس کا نمبر خریدار کو الاٹ کر دیا ہو تو اس صورت میں پلاٹ کو نفع کے ساتھ  کی خرید و فروخت جائز ہوگی۔

اور اگر پلاٹ مختص کر کے اس کا نمبر الاٹ نہ کیا گیا ہو تو اس صورت میں پلاٹ کو نفع کے ساتھ آگے فروخت  کرنا شرعاًجائز نہیں  ہوگا  اور اس فروخت سے حاصل ہونے والا نفع  بھی جائز نہیں  ہوگا ۔  

العنایہ فی شرح الہدایہ میں ہے:

"(ومن دفع أرضا بيضاء إلى رجل سنين معلومة يغرس فيها شجرا على أن تكون الأرض والشجر بين رب الأرض والغارس نصفين لم يجز ذلك) لاشتراط الشركة فيما كان حاصلا قبل الشركة لا بعمله (وجميع الثمر والغرس لرب الأرض وللغارس قيمة غرسه وأجر مثله فيما عمل) لأنه في معنى قفيز الطحان: إذ هو استئجار ببعض ما يخرج من عمله وهو نصف البستان فيفسد وتعذر رد الغراس لاتصالها بالأرض فيجب قيمتها وأجر مثله لأنه لا يدخل في قيمة الغراس لتقومها بنفسها"۔

(کتاب المساقاۃ،ج:9،ص:483،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وزاد في البحر خامسا وهو الإشراك: أي أن يشرك غيره فيما اشتراه: أي بأن يبيعه نصفه مثلا، وتركه الشارح؛ لأنه غير خارج عن الأربعة وقد يعتبر من حيث تعلقه بوصف الثمن ككونه حالا أو مؤجلا"۔

(کتاب البیوع،ج:4،ص:501،ط:سعید)

الدر المختارمیں ہے:

"ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي"

(کتاب البیوع،ج:4،ص:454،ط:سعید)

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"(المادة 200) : (يلزم أن يكون المبيع معلوما عند المشتري) لان البیع المجھول فاسد"۔

(الکتاب الاول ؛فی البیوع ،الباب الثانی :فی بیان المسائل المتعلقۃ بالمبیع ،ج:1،ص:78،المادۃ:200،ط:دار الکتب العلمیہ)

وفیہ ایضا:

"(المادة 198) : (يلزم أن يكون المبيع مقدور التسليم) فبیع غیر مقدور التسلیم باطلقال القردی عن جواہر الفتاوی :باع عقاراً ملکه لکن فی ید آخرالفتوی علی انه لا یصح عملاً بقول محمد؛ لانه لا یقدر علی تسلیمه اھ"۔

(الکتاب الاول ؛فی البیوع ،الباب الثانی :فی بیان المسائل المتعلقۃ بالمبیع ،ج:1،ص:78،المادۃ:198،ط:دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں