بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیرمحرم کے عورت کا تین ماہ مدینہ میں رہنے کا حکم


سوال

ایسی عورت جس کی عمر  ساٹھ سال ہے ،بنا محرم کے مدینہ منورہ میں 3 ماہ رہ سکتی ہے ؟

جواب

اگر عورت کا   اپنے شہر یا علاقہ سے باہر سفر کا ارادہ ہو اور اڑتالیس میل (سوا ستتر کلومیڑ) یا اس سے زیادہ مسافت  کا سفرہو تو   جب تک مردوں میں سے اپنا کوئی محرم  یا  شوہر ساتھ نہ  ہو اس وقت تک عورت کے لیےشرعاً  سفر کرنا  جائز نہیں ہے، حدیث شریف  میں  اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔ البتہ سفر شرعی سے کم مسافت کے سفر میں اگر فتنہ کا خوف نہ ہو تو اکیلے سفر کی گنجائش ہے، عمومی احوال میں بھی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اڑتالیس میل سے کم یا شہر کے اندر بھی بالکل تنہا سفر نہ کرے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں کی مسافت کے بقدر سفر  کرے، مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو۔

اسی طرح بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ  عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  انہوں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرمارہے تھے: کوئی عورت کسی مرد سے تنہائی میں نہ ملے اور نہ کوئی عورت  بغیر محرم کے سفر کرے، تو حاضرین میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول!  میں نے فلاں جہاد کے سفر میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوایا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ عورت  گھر سے محرم کے ساتھ   سفر طے کر کے مدینہ پہنچے اور پھر اس کے بعد  بغیر محرم کے وہاں قیام کرے،تو اس طرح کرنا عورت کے لیے جائز ہے ،کیوں کہ حدیث میں عورت کے لیے تنہا سفر کرنے کی ممانعت ہے ،قیام کرنے کی نہیں ، بشرطیکہ عفت وپاکدامنی سےوہاں  رہ سکے ،البتہ بغیر محرم کے  عورت کا  شرعی سفر کی مقدار  بغیر محرم کے نکلنا جائز نہیں ہے ۔

بخاری شریف میں ہے :

"عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لايخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك»."

(باب: من اكتتب في جيش فخرجت امرأته حاجة، وكان له عذر، هل يؤذن له،ج:3،ص:1094،ط:دارابن كثير)

صحیح مسلم  میں ہے :

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»".

(کتاب الحج، 1/433، ط: قدیمی)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے :

"ولا يزال على حكم السفر حتى ‌ينوي ‌الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية."

(كتاب الصلوة،باب صلوة المسافر ،ج:1،ص؛139 ،ط:دارالفكر)

وفيه  ايضا:

"(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع والمحرم الزوج، ومن لا يجوز مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو مصاهرة كذا في الخلاصة."

(كتاب المناسك ،الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه،ج:1،ص:218 ،ط:سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144505100219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں