بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر محرم کے عمرہ کرنا


سوال

میری سالی صاحبہ دو جوان بچیوں کے ساتھ عمرہ ادا کرنے چلی گئی پورا عمرہ کر بھی لیا ۔ امریکہ میں رہتے ہیں ۔ہم کو  بتایا کہ  سعودی حکومت نے خوداجازت دی ہے کہ عورت بلا محرم  بھی  عمرے کیلئے جا سکتی ہے اور بغیر محرم کے عمرہ کر سکتی ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ اس میں کون گناہگار ہے سعودی حکومت یا خواتین؟

تینوں خواتین بغیر محرم عمرہ ادا کر کے کراچی آگئی ۔دو ہفتے بعد واپس امریکہ روانہ ہوئی یاایئر لائن کی طرف سے جدہ میں ایک دن قیام یعنی انتظار ملا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ تینوں خواتین بغیر احرام مکہ پہنچ گئی۔ وہاں باقاعدگی سے نمازیں ادا کیں اور  ایک دن بعد  یہاں سے امریکہ روانہ ہوگئی ۔اب معلوم یہ کرنا ہے کہ بغیر احرام کے حرم شریف میں جانا (پاکستان سے جانا )ہو اور عمرے کی نیت اور ارادہ بھی نہیں تھا ایسی صورت میں کوئی دم واجب ہوگا یا نہیں ایسی صوت میں  کوئی غلط عمل سرزد ہوا ہے یا نہیں؟

جواب

اگر  اڑتالیس میل (سوا ستتر کلومیڑ) یا اس سے زیادہ مسافت  کا سفرہو تو   جب تک مردوں میں سے اپنا کوئی محرم  یا  شوہر ساتھ نہ  ہو اس وقت تک عورت کے لیے سفر کرنا  جائز نہیں ہے، حدیث شریف  میں  اس کی سخت ممانعت آئی ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں کی مسافت کے بقدر سفر  کرے، مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو۔

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»".

(الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)

اسی طرح بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ  عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  انہوں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے: کوئی عورت کسی مرد سے تنہائی میں نہ ملے اور نہ کوئی عورت  بغیر محرم کے سفر کرے، تو حاضرین میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول!  میں نے فلاں جہاد کے سفر میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوایا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

" عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك»".

(صحيح البخاري 4/ 59)

 لہذا سفر خواہ حج کا ہو یا عمرہ کا،  اور خواہ تنہا سفر کرے  یا عورتوں کے قافلے کے ساتھ ، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی بہرصورت  عورت کے لیے محرم کے بغیر  سفر کرنا جائز نہیں ہے اور عورت اس طرح کرنے میں گناہگار ہوگی۔ صورت مسؤلہ میں  مذکورہ خواتین کا امریکہ سے علیحدہ سفر کرنا جائز نہیں  تھا اور اس طرح عمرہ کرنا بھی درست نہ تھا، البتہ جو عمرہ کیا وہ ادا ہوگیا۔ نیز اگر کوئی عاقل بالغ مرد یا  عورت جو میقات سے  باہر رہنے والا ہے  اور مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے خواہ حج یا  عمرہ کی نیت سے یا زیارت یا کسی اور غرض سے  تو اس پر میقات سے احرام باندھنا لازم ہے، اور اگر بغیر احرام کے میقات سے گزرگیا تو گناہ گار ہوگا،  اور اس   کو میقات پر دوبارہ آکر احرام باندھنا واجب ہوگا، اگر دوبارہ میقات پر نہیں آیا تو اس پر ایک دم لازم ہوجائے گا۔ مذکورہ صورت میں   ایک دن کیلئے  بلا احرام اور عمرہ کی نیت کے بغیر  حرم جانا ناجائز تھا، اور مذکورہ صورت میں  ان تینوں پر ایک   ایک دم ادا کرنا لازم ہے۔

     بدائع الصنائع میں ہے:

 "(وأما) الذي يخص النساء فشرطان: أحدهما أن يكون معها زوجها أو محرم لها فإن لم يوجد أحدهما لايجب عليها الحج. وهذا عندنا، وعند الشافعي هذا ليس بشرط، ويلزمها الحج، والخروج من غير زوج، ولا محرم إذا كان معها نساء في الرفقة ثقات، واحتج بظاهر قوله تعالى: ﴿ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلاً﴾ [آل عمران: 97]. وخطاب الناس يتناول الذكور، والإناث بلا خلاف فإذا كان لها زاد، وراحلة كانت مستطيعة، وإذا كان معها نساء ثقات يؤمن الفساد عليها، فيلزمها فرض الحج.(ولنا) ما روي عن ابن عباس - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ألا «لا تحجن امرأة إلا ومعها محرم» ، وعن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا تسافر امرأة ثلاثة أيام إلا ومعها محرم أو زوج»؛ ولأنها إذا لم يكن معها زوج، ولا محرم لا يؤمن عليها؛ إذ النساء لحم على وضم إلا ما ذب عنه، ولهذا لا يجوز لها الخروج وحدها. والخوف عند اجتماعهن أكثر، ولهذا حرمت الخلوة بالأجنبية، وإن كان معها امرأة أخرى، والآية لا تتناول النساء حال عدم الزوج، والمحرم معها؛ لأن المرأة لا تقدر على الركوب، والنزول بنفسها فتحتاج إلى من يركبها، وينزلها، ولا يجوز ذلك لغير الزوج، والمحرم فلم تكن مستطيعة في هذه الحالة فلا يتناولها النص".

(2/123، کتاب الحج، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں