بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر محرم کے عمرے کے لیے جانے کا حکم


سوال

میری امی، ابو، پھپھو اور پھپھو کا بیٹا اور میری چچی ایک ہی گروپ میں 9 نومبر کو عمرہ جا رہے ہیں ،میں نے چچی سے کہا محرم کے بغیر عمرہ پر نہیں جاسکتے پھپھو کا بیٹا آپ کا سگا بھانجا تو نہیں ہے، نامحرم کے زمرے میں آتا ہے، خیر اس وقت انھوں نے کال پر میری بات سن لی،  لیکن اگلے دن آکر کہنے لگیں کہ میں نے  ایک مدرسے سے معلومات لی ہیں اور ایک عالم سے بھی معلومات لی ہیں،  ان کا کہنا ہےکہ جاسکتے ہیں،  کوئی حرج نہیں!  براہ کرم مجھے اس بارے میں آگاہ کردیں!

جواب

واضح رہے کہ اگر  اڑتالیس میل (سوا ستتر کلومیڑ) یا اس سے زیادہ مسافت  کا سفرہو تو   جب تک مردوں میں سے اپنا کوئی محرم  یا  شوہر ساتھ نہ  ہو اس وقت تک عورت کے لیے سفر کرنا  جائز نہیں ہے، حدیث شریف  میں  اس کی سخت ممانعت آئی ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں کی مسافت کے بقدر سفر  کرے، مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو۔

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»."

(الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)

اسی طرح بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ  عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  انہوں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے: کوئی عورت کسی مرد سے تنہائی میں نہ ملے اور نہ کوئی عورت  بغیر محرم کے سفر کرے، تو حاضرین میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول!  میں نے فلاں جہاد کے سفر میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوایا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

" عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك»". (صحيح البخاري (4/ 59)

مذکورہ روایات میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کس قدر تاکید سے  عورت کے لیے محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت آئی ہے کہ کہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے جیسی تاکید کے بعد یہ ممانعت ہے، اور کہیں شوہر کو  رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جہاد جیسے مقدس فریضہ  کے بجائے اس کی بیوی کے ساتھ حج کرنے کو کہا جارہا ہے، نیز حج کے فرض ہونے کے بعدبھی  عورت کے لیے محرم کے بغیر اس کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر مرتے دم تک محرم میسر نہ ہوتو وہ مرنے سے پہلے حج کی وصیت کرجائے ،چہ جائے کہ عمرہ  کے لیے محرم کے بغیر سفر کیا جائے، پھر  یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ جملہ عبادات انسان اپنے رب تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کرتا ہے،  اور یہ جبھی ممکن ہے کہ رب تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کیا جائے ،ورنہ  نبی کریم ﷺ کے ارشادات کی نافرمانی کرکے اللہ کے رضا  اور ثواب کی امید  کرنا محال ،عبث اور ناسمجھی ہے،لہذا شرعی احکام کی مکمل پاسداری لازم ہے۔

بنا بر ایں صورتِ مسئولہ میں سائل کی مذکورہ چچی کے ساتھ چونکہ محرم نہیں ہے،اس لیے محرم کے بغیر عمرے کے لیے جانا ان کے لیے جائز نہیں ہے، تاہم  اگر وہ بغیر محرم کے جا کر عمرہ کریں گی  تو عمرہ ادا ہو جائے گا، البتہ بغیر محرم کے سفر کا گناہ ہو گا۔

     بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الذي يخص النساء فشرطان: أحدهما أن يكون معها زوجها أو محرم لها فإن لم يوجد أحدهما لايجب عليها الحج. وهذا عندنا، وعند الشافعي هذا ليس بشرط، ويلزمها الحج، والخروج من غير زوج، ولا محرم إذا كان معها نساء في الرفقة ثقات، واحتج بظاهر قوله تعالى: ﴿ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلاً﴾ [آل عمران: 97]. وخطاب الناس يتناول الذكور، والإناث بلا خلاف فإذا كان لها زاد، وراحلة كانت مستطيعة، وإذا كان معها نساء ثقات يؤمن الفساد عليها، فيلزمها فرض الحج.(ولنا) ما روي عن ابن عباس - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ألا «لا تحجن امرأة إلا ومعها محرم» ، وعن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا تسافر امرأة ثلاثة أيام إلا ومعها محرم أو زوج»؛ ولأنها إذا لم يكن معها زوج، ولا محرم لا يؤمن عليها؛ إذ النساء لحم على وضم إلا ما ذب عنه، ولهذا لا يجوز لها الخروج وحدها. والخوف عند اجتماعهن أكثر، ولهذا حرمت الخلوة بالأجنبية، وإن كان معها امرأة أخرى، والآية لا تتناول النساء حال عدم الزوج، والمحرم معها؛ لأن المرأة لا تقدر على الركوب، والنزول بنفسها فتحتاج إلى من يركبها، وينزلها، ولا يجوز ذلك لغير الزوج، والمحرم فلم تكن مستطيعة في هذه الحالة فلا يتناولها النص".

( کتاب الحج، 2/123، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں