بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر حساب کے زکوۃ دینا


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ کیا بغیر حساب زکات ادا کی جا سکتی  ہے یعنی کہ لم سم پر ؟

جواب

واضح رہے کہ زکات پورا حساب کر کے دینی چاہیے، بغیر حساب کیے انداز  کر کے دینا مناسب نہیں ہے، اگر اندازہ کر کے زکات دی گئی اور اندازہ  کم رہا (یعنی اداکردہ مقدار واجب مقدار سے کم رہی) تو جتنی مقدار ادا کردی گئی وہ تو ادا ہوجائے گی، لیکن جو مقدار ادا کرنے سے رہ گئی اس کا ادا کرنا ذمہ میں باقی رہ گیا، اگر بعد میں اس کو ادا کردیا گیا تو وہ بھی ادا ہو جائے گی، اگر کسی وجہ سے پورا حساب کرنا ممکن نہ ہو تو احتیاطاً زیادہ سے زیادہ کا اندازہ لگا کر زکات ادا کردینی چاہیے؛ تاکہ زکات کم ادا نہ ہو۔ اور اگر پہلے ہی اندازہ لگا کر کچھ زیادہ زکات دے دی گئی تو بھی زکات ادا ہوجائے گی۔ تاہم زکات  کی ادائیگی کو کسی جگہ لکھ لینا چاہیے؛ تاکہ اس کا مکمل حساب کیا جاسکے۔

در المختار میں ہے:

"(وفي كل خمس) بضم الخاء (بحسابه) ففي كل أربعين درهما درهم، وفي كل أربعة مثاقيل قيراطان الخ."

(کتاب الزکوۃ , باب زکوۃ المال جلد 2 ص: 299 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں