بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیرہ احرام کے میقات تجاوز کرنے والا کیا کرے؟


سوال

میرا پہلا عمرہ ہے اور میں اس وقت تین دن سے میقات کے اندر موجود ہوں ۔ کیا یہاں سے  مجھے احرام باندھنے میقات جانا ہو گا یا یہاں سے ہی باندھ کے چلا جاؤں ؟

جواب

سائل کے سوال میں قدرے ابہام اور مختلف صورتوں کا احتمال ہے، محتملہ دو تین صورتیں ذکر کی جاتی ہیں: 

1- صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل آفاقی(یعنی میقات سے باہر رہنے والا شخص) ہے اور سائل کا ارادہ مکہ معظمہ جانے کا تھا اور وہ احرام کے بغیر میقات سے گزر گیا ہے  تو سائل  کے لیے بغیر احرام میقات  تجاوز کرنا جائز نہیں تھا،  اب  سائل پر لازم ہے کہ کسی بھی میقات پر  واپس جا کر احرام باندھ لے، پھر مکہ مکرمہ جاکرعمرہ کرلے۔اگر میقات پر واپس گئے  بغیر یہیں (میقات کے اندر)سے ہی احرام باندھ لیا تو ایک دم لازم ہوگا یعنی حرم میں ایک بکرا یا دنبہ ذبح کرنا ہوگا۔

2- اگر سائل آفاقی تو ہے، لیکن  مکہ مکرمہ جانے سے پہلے میقات کے اندر کسی اور   جگہ جانے  کا اس کا ارادہ تھا، تو اس پرمیقات سے تجاوز کرنے کے لیے احرام باندھنا لازم نہیں تھا،بلکہ جس شہر میں ٹھہرا ہے،  جب  وہاں سے  مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ کرے گا،  تب اس پر وہیں سے جہاں میقات کے اندر مقیم ہے احرام  باندھنا لازم ہوگا۔

3- اگر سائل کی مراد پہلے عمرے سے پہلا سفر ہے، اور وہ میقات سے پہلے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرچکا ہے، اور اب دوسرا عمرہ کرنا چاہتا ہے تو  سائل کے لیے دوبارہ میقات پر جانا اور وہاں سے احرام باندھنا لازم نہیں ہے، بلکہ حدودِ حرم سے باہر  جاکر احرام باندھنا لازم ہوگا، خواہ تنعیم (مسجدِ عائشہ) یا جعرانہ جائے یا کسی حدودِ حرم سے باہر کسی اور مقام سے احرام باندھ لے، البتہ مسجدِ عائشہ سے احرام باندھنا زیادہ بہتر ہے۔

الدرالمختار میں ہے:

"(وحرم تأخير الإحرام عنها) كلها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مكة) يعني الحرم (ولو لحاجة) غير الحج أما لو قصد موضعا من الحل كخليص وجدة حل له مجاوزته بلا إحرام فإذا حل به التحق بأهله فله دخول مكة بلا إحرام وهو الحيلة لمريد ذلك".

(کتاب الحج، مطلب فی المواقیت، ج:2، ص: 476، ط:سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’جو آفاقی مکہ یا حرم کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے میقات سے بغیر احرام کے گزرنا جائز نہیں، خواہ اس کا حج یا  عمرہ کا ارادہ ہو، خواہ سیر، تجارت وغیرہ کا رادہ ہو، اگر گزر جائے تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ کسی میقات پر جا کر احرام باندھے، ورنہ اس پر دم واجب ہوگا۔‘‘

(کتاب الحج، باب المواقیت، ج: 10، ص: 381، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"فإن أحرم بالحج أو العمرة من غير أن يرجع إلى الميقات، فعليه دم لترك حق الميقات."

(باب ما يلزم لمجاوزة الميقات بغير الإحرام، ج: 2، ص: 475، ط: إدارة القرآن كراتشي)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ومن جاوز الميقات وهو يريد الحج والعمرة غير محرم فلا يخلو إما أن يكون أحرم داخل الميقات أو عاد إلى الميقات ثم أحرم فإن أحرم داخل الميقات ينظر إن خاف فوت الحج متى عاد فإنه لا يعود ويمضي في إحرامه ولزمه دم، وإن كان لا يخاف فوات الحج فإنه يعود إلى الوقت وإذا عاد إلى الوقت فلا يخلو إما أن يكون حلالا أو محرما فإن عاد حلالا ثم أحرم؛ سقط عنه الدم وإن عاد إلى الوقت محرما قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: إن لبى سقط عنه الدم وإن لم يلب لا يسقط وعندهما يسقط في الوجهين ومن جاوز وقته غير محرم ثم أتى وقتا آخر أقرب منه وأحرم؛ جاز ولا شيء عليه، ولو جاوز الميقات ويريد بستان بني عامر دون مكة؛ فلا شيء عليه."

(كتاب المناسك، الباب العاشر في مجاوزة الميقات بغير إحرام، ج: 1، ص: 253، ط: دار الفكر بيروت)

غنیۃ الناسک میں  ہے:

"آفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم  ولولتجارة أو سیاحة وجاوز آخر مواقیته غیر محرم ثم أحرم أولم یحرم أثم ولزمه دم وعلیه العود إلی میقاته الذي جاوزه أو إلی غیره أقرب أو أبعد ، وإلی میقاته الذي جاوزه أفضل، وعن أبي یوسف: إن کان الذي یرجع إلیه محاذیاً لمیقاته الذي جاوزه أو أبعد منه سقط الدم  وإلا فلا، فإن لم یعد ولا عذر له أثم؛ لترکه العود الواجب."

 (باب مجاوزة المیقات بغیر إحرام، ص: 60، ط: إدارة القرآن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں