بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر پڑھے تین طلاق کے طلاق نامہ پر دستخط کرنے کا حکم


سوال

میں ہسپتال میں تھا ،جگر کا مسئلہ تھا ،اس دوران بیوی اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ لگی ہوئی تھی،میرے پاس نہیں آئی،تو میں نے غصے میں آ کر دوست کو بولا "طلاق نامہ"بنوا کر لاؤ،وہ طلاق نامہ بنوا کر لایا،میں نے دیکھے بغیر اس پر دستخط کر دیئے،نہ مجھے دوست نے بتایاکہ اس میں کتنی طلاقیں لکھی ہوئی ہیں،نہ ہی میں نے پڑھا  ابھی تک میں نے نہیں پڑھا،واضح رہے کہ طلاق نامہ میں الگ الگ جملے میں  تین طلاقیں درج ہیں۔

سوال یہ ہے کہ طلاق ہوئی یا نہیں۔۔۔؟

وضاحت:میرے علم میں صرف یہی بات تھی کہ طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں،کیونکہ ایک طلاق یا دو طلاق کا  مجھے علم نہیں تھا،اور میں نے اپنے علم کی روشنی میں ہی دوست کو کہا تھا کہ جاؤ طلاق کے کاغذات بنوا کر لاؤ،اور وہ طلاق کےکاغذات لے آیا،جس پر میں نے پڑھے بغیر دستخط کر دیے،اور میرے ذہن میں یہ تھا کہ تین طلاقیں ہیں اور میں اس پر دستخط کر رہاہوں،

جواب

صورتِ مسؤلہ میں چونکہ سائل کے ذہن میں یہی بات تھی کہ میں تین طلاق کے طلاق نامہ پر دستخط کر رہا ہوں(جیسا کہ سائل کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے ،کہ تین طلاق کے علاوہ کا سائل کو علم ہی نہیں تھا)تو ایسی صورت میں منسلکہ طلاق نامہ کی رو سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں،اور سائل پر بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے،نکاح ٹوٹ چکا ہے ،اب رجوع جائز نہیں،طلاق نامہ کے وقت سے ہی سائل کی بیوی کی عدت شروع ہو چکی ہے،لہذا وہ اپنی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو تو،اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كتب الطلاق، وإن مستبينًا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل: مطلقًا، ولو على نحو الماء فلا مطلقًا.

(قوله: كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرًا ومعنونًا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لايكون مصدرًا ومعنونًا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لايمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لايقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينةً لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لاتخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة.

(کتاب الطلاق،ج:3 ،ص:246،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة ومايتصل به،  ج:1، ص: 473، ط: مكتبه رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100818

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں