بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام بغوی رحمہ اللہ کی جانب منسوب مقولہ ’’تقدیر کے فیصلے غالب ہیں اور انجام نامعلوم اس لیے ظاہری احوال پر غرور نہیں کرنا چاہیے ... إلخ‘‘ کی تحقیق وحوالہ


سوال

تقدیر کے فیصلے غالب ہیں اور انجام نامعلوم ، اس لیے ظاہری احوال پر غرور نہیں کرنا چاہیے،دین پر ثابت قدمی اور حسن خاتمہ کی دعا بھی اسی لیے تعلیم کی گئی ہے۔

کیا یہ امام بغوی رحمہ اللہ کا قول ہے ؟ رہنمائی فرمائیں۔ ‏

جواب

ہماری تحقیق کے مطابق مذکورہ قول امام بغوی  رحمه الله (المتوفی: 516ھ) کا نہیں ہے،  بلکہ يه اصل عبارت ابن حجر رحمه الله    (المتوفی:852 ھ)کی ہے ، جیسا کہ فتح الباری میں  ایک حدیث سے حاصل ہونے والے فائدے کے طور پر ابن حجر رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"وفيه أن الأقدار غالبة، والعاقبة غائبة، فلا ينبغي لأحد أن يغتر بظاهر الحال، ومن ثم شرع الدعاء بالثبات على الدين وبحسن الخاتمة."

(فتح البارى، كتاب القدر (11/ 490 و491)، ط/ دار المعرفة بيروت، 1379ه)

سوال یہ ہے کہ یہ عبارت  امام بغوی رحمہ اللہ کی جانب کیوں منسوب ہوگئی ؟   بظاہر اس کی  وجہ  یہ ہے کہ  کتاب ’’شرح السنة‘‘ طبع المکتب الاسلامی   کے محققین (شیخ زہیر الشاویش/شیخ شعیب الأرناؤط رحمہما اللہ)   نے اسے  امام بغوی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ  حدیث سے حاصل ہونے والے مختلف  فوائد کے ضمن میں ایک فائدہ کے طور پر  حاشیہ میں ذکر کیا ہے(اور انہوں نے اس کے اصل مصدر کا ذکر تک نہیں کیا)  اس وجہ سے  سرسری طور پر دیکھنے والے حضرات  نے غلطی سے  اسے امام بغوی رحمہ اللہ کا قول سمجھ لیا ۔

(شرح السنة، باب الايمان بالقدر، بقية حاشية (1) للصفحة السابقة، (1/ 130)، ط/ المكتب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502100841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں