بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر ذمہ داری قبول کیے کسی کو ضامن بنانا


سوال

 میرا سوال یہ ہےکہ زید پکوان سنٹر​ پردیگ پکانے کا کاروبار کرتا تھا، اس کے ساتھ عمر بھی کاروبار میں شریک تھا،خالد کی عمر کے ساتھ جان پہچان تھی، ایک مرتبہ عمر نے خالد کو کال کی کہ ایک جگہ دیگ پکوائی کا آرڈر آیا ہے اگر آپ اس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو پیسے دے دیں خالد نے حامی بھر لی، چنانچہ زید اور عمر دونوں ایک ساتھ خالد کے پاس آئے اور خالد نے پیسے عمر کے ہاتھ میں دے دیئے ،(زید کے ساتھ سناشائی عمر کے واسطے سے ہی ہوئی تھی)زید نے وہ پیسے بھی کاروبار میں لگا لیے،مہینہ بعد زید نے بتایا کہ کاروبار میں آپ کو 7000 روپے منافع ہوا ہے۔

اسی دوران ایک دن خالد عمر کے پاس جا رہا تھا ،راستے میں زید سے ملاقات ہوئی تو زید نے کہا کہ پیسے ابھی آپ کو نہیں ملیں گے، مجھے کچھ مہلت دے دو، خالد نے مہلت دے دی،جب خالد کی ملاقات عمر سے ہوئی تو عمر نے کہا: آپ کو زید نے کیا کہا ہے؟ خالد نے کہا: مجھ سے مہلت مانگ رہا تھا، میں نے مہلت دے دی ،عمر نے کہا: آپ نے مہلت نہیں دینی تھی، میں اس سے پیسے نکلوانے کے چکر میں ہوں ،تو خالد نے کہا: اگر مسئلہ ہے تو میں ابھی جاکر اس سے مہلت ختم کرواتا ہوں، عمر نے کہا نہیں چھوڑو رہنے دو۔

پھر یہ معاملہ چلتا رہا پیسے نہیں ملے، ایک دن عمر نے خالد کو کال کی کہ زید بھاگ گیا ہے، آپ کے پیسے میں کسی طرح پورے کر کے دوں گا، خالد نے کہا: چلو دیکھتے ہیں، اس کی تلاش وغیرہ جاری تھی کہ عمر نے فون پر خالد کو بتایا کہ زید واپس آ گیا ہے ،اب وہ دوبارہ کام شروع کر رہا ہے، خالد نے کہا :میں آتا ہوں ،اس کے پاس جاتا ہوں اور چیک وغیرہ پر اس سے دستخط لیتا ہوں ،اسی دوران زید بھی خالد کو فون کر کے بتاتا رہا کہ میں آپ کے پیسے لٹا دوں گا، لیکن خالد عمر کے کہنے پر ہی اسے کہتا رہا کہ میں نے پیسے عمر کو دیئے ہیں، میں ہر صورت میں لوں گا،خالد کی طرف سے مسلسل اصرار رہا کہ میرے پیسے دو ،پھر عمر نے کہا آپ اسے مہلت دے دو لگتا ہے، اب صحیح کام کرے گا، آپ اس کو تنگ نہ کرو، خالد نے عمر کے کہنے پر مہلت دے دی ،لیکن زید دوبارہ فیملی سمیت بھاگ گیا، اب اس کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں کہ کہاں ہے ،اس نے عمر کو جو معلومات وغیرہ دی تھی سب غلط تھیں ۔

1۔اب خالد کا کہنا ہے کہ میں نے پیسے عمر کے واسطے سے دیئے تھے اور میرا تعلق عمر کے ساتھ تھا،لہٰذا عمر میرے پیسوں کا ضامن تھا،

2۔اور دونوں کاروبار میں کافی عرصے سے شریک بھی تھے، لیکن عمر انکار کرتا ہے ، عمر کہتا ہے :آپ نے مہلت نہیں دینی تھی، جبکہ خالد کہتا ہے: میں نے اسی وقت کہا تھاکہ میں مہلت کے الفاظ واپس لیتا ہوں، لیکن آپ نے منع کیا تھا ،پھر جب زید واپس آیا تو خالد اس سے اسٹامپ / چیک بک اور اس کے مکمل ایڈریس کی بات کر رہا تھا تو آپ نے ہی مجھے منع کیا تھا، عمر کہتا ہے :وہ میں نے بطور مشورہ کہا تھا، خالد کا کہنا ہے کہ وہ مشورہ نہیں تھا، بلکہ ایک معاملہ تھا ،آپ کے کہنے پر چھوڑا ،خالد کا کہنا ہے کہ میں نے پیسے آپ کے ہاتھ میں آپ کی ضمانت پر دیئے تھے ،سوال یہ ہےکہ اب عمر ان پیسوں کا ضامن ہو گا یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ   کوئی شخص کسی بھی معاملہ میں دوسرے  کے مال کا ذمہ دار تب بنتا ہے جب وہ اپنی مرضی سے اس کی طرف سے ذمہ داری قبول کرے ،محض کسی کام کے مشورہ دینے او ر بعد میں نقصان ہوجانے کی صورت میں  مشورہ دینا والا صرف مشورہ دینے کی وجہ سے تاوان کا ذمہ دار نہیں بنتا، نیز شرکت کے معاملہ میں ایک شریک کو دوسرے شریک کی وجہ سے تب ضامن بنایا جاسکتا ہےجب  دونوں شریک، ، مال میں، تصرف کرنے  میں، نفع میں، ایک دوسرے کا کفیل بننے میں اور قرضہ وغیرہ کی ذمہ داری میں برابر کے شریک ہوں،لہٰذا صور تِ مسئولہ میں  عمر نے اگرخالد کے پیسوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی اور ذکر کردہ معاملات  بطورِ مشورہ  کیے تھے،نیز عمراگر  زید کے ساتھ  کاروبار میں بھی  برابر کا شریک نہیں تھا   تو  عمر خالد کے پیسوں کا ذمہ دار نہیں ہوگا،بصورتِ دیگر  ضامن ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) الركن فهو الإيجاب والقبول الإيجاب من الكفيل والقبول من الطالب ... الكفالة ليست بالتزام محض بل فيها معنى التمليك لما نذكر والتمليك لا يتم إلا بالإيجاب والقبول كالبيع."

(كتاب الكفالة،2/6،ط:ايچ ايم سعيد)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

‌‌‌"أحكام ‌خاصة ‌بشركة ‌العنان:

73 - ثانيا: ذهب الحنفية إلى أن الدين الذي يلزم أحد الشريكين لا يؤخذ به الآخر: لأن شركة العنان تنعقد على الوكالة لا غير، إلا إذا صرح فيها بالتضامن - كما ذكره في الخانية.

75 - ثالثا - ذهب الحنفية إلى أن حقوق العقد الذي يتولاه أحد الشريكين، قاصرة عليه: لأنه ما دام الفرض أن لا كفالة، فإن حقوق العقد إنما تكون للعاقد."

(احكام خاصة بشركة العنان،72/26،ط: وزارة الأوقاف و الشؤون الإسلامية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308102126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں