بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیروضوکے سجدہ تلاوت کاحکم اور بخاری کی ایک روایت کی تشریح


سوال

کیا بغیر وضو کے سجدہ تلاوت کرنا جائز ہے،  نیز ایسا کرنے سے نکاح کا کیا حکم ہو گا؟ اگر جائز نہیں توصحیح بخاری میں جو حدیث ایک صحابی کی طرف منسوب ہے کہ وہ بغیر وضو کے ہی اونٹ پر تلاوت بھی کرتے تھے اور آیت سجدہ آنے پر بغیر وضو کے ہی سجدہ بھی فرماتے تھے تو ازراہِ کرم اصلاح فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ جن شرائط کا نماز کے لیے پایا جانا ضروری ہے، ان ہی  شرائط کا سجدہ تلاوت کے  لیے بھی پایا جانا ضروری ہے،جیسے بدن کا پاک ہونا، کپڑوں کا پاک ہونا، جگہ کا پاک ہونا، ستر کو چھپانا، قبلہ کی طرف رخ ہونا، باوضو ہونا،لہٰذا سجدہ تلاوت جزءنماز ہونے کی وجہ سےبغیر وضو کےادا کرنا جائز نہیں ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کا مسلک بھی یہی ہے۔

اور  اگر کسی نے بے وضو  سجدہ تلاوت کرلیا تو اس  سے  نکاح پر  اثر نہیں پڑتاہے۔

باقی یہ کہ صحیح بخاری میں جو حدیث ایک صحابی کی طرف منسوب ہے کہ وہ بغیر وضو کے ہی اونٹ پر تلاوت بھی کرتے تھے اور آیت سجدہ آنے پر بغیر وضو کے ہی سجدہ بھی فرماتے تھے،اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے:

وہ صحابی حضرت اِبن عمر رضی اللہ عنہماتھے حضرت اِبن عمررضی اللہ عنہماکے جس اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے، وہ یہ ہے:

"قال: وكان ابن عمر -رضي اللَّه عنهما- يسجد على غير وضوء."

ایک اورروایت جو سعیدبن جبیررضی الله عنہ  کی طرف منسوب ہے:

"عن سعيد بن جبير، قال: كان ابن عمر -رضي اللَّه عنهما- ينزل عن راحلته، فيهريق الماء، ثم يركب، فيقرأ السجدة، ‌فيسجد، ‌وما ‌يتوضأ."

اس میں ابن عمررضی الله  عنہ کے عمل سے بغیر وضو سجدہ کرنے کا پتہ چلتا ہے، لیکن امام بیہقی  رحمہ اللہ نے  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے قولی روایت نقل کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قول طہارت کے ساتھ سجدہ کرنے کا تھا، روایت  ملاحظہ ہو:

"عن ابن عمر قال: لایسجد الرجل إلا و هو طاهر."

ان احادیث کےدرمیان شارحین حضرات نے  جو تطبیق دی ہے وہ درج ذیل ہے:

"وفق بينهما بأن حمل قوله: (طاهر) على الطهارة الكبرى، أو يكون هذا على حالة الإختيار، وذلك على حالة الضرورة."

ترجمہ:ان دو روایتوں کےدرمیان  اس طرح تطبیق  دی جاسکتی ہےکہ (وهوطاهر) طہارتِ کبریٰ یعنی غسل پر یاحالت اِختیار پر محمول  ہے، جب کہ  عدم ِطہارت کا قول  حاجت و ضرورت پرمحمول ہے۔

اور  ضابطہ بھی یہی ہے کہ قولی روایت کو فعلی روایت پر ترجیح حاصل ہوتی ہے؛ لہٰذا جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے  قولی اور فعلی دونوں طرح کی روایات منقول ہیں تو قولی روایت راجح ہوگی۔

اور اگر ہم ابن عمررضی اللہ عنہما کے مسلک کو مان بھی لیں  کہ ان کے ہاں بغیر وضو سجدۂ تلاوت کرنا درست تھا تو  یہ صرف ان ہی کا مسلک ہے، باقی  کسی صحابی رضی اللہ عنہ  کا یہ مسلک نہیں ہے،  اسی طرح ائمہ  اربعہ متبوعین کے ہاں بھی سجدۂ تلاوت کے لیے طہارت شرط ہے۔ ہاں  امام شعبی  اس  کے قائل ہیں کہ سجدہ تلاوت کے لیے طہارت شرط نہیں ہے، لہٰذا تفردات پر عمل کرنےکےبجائے  جملہ صحابہ کرام کے قول  پر عمل کرنا لازم ہے اور مشہور مذہب کو چھوڑنا نہ عقل کاتقاضا ہے اور نہ شرع کا،بلکہ اِبن عمر رضی اللہ عنہما سے اس فعل کا معارض قول بھی موجود ہے ،جو کہ راجح مذہب ہے،لہٰذااسی کےمطابق عمل کیاجائے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"ولا خلاف في أن سجود القرآن يحتاج إلى ما تحتاج إليه الصلاة من طهارة حدث ونجس ، ونية ، واستقبال قبلة ، ووقت . إلا ما ذكر البخاري عن ابن عمر أنه كان يسجد على غير طهارة . وذكره ابن المنذر عن الشعبي."

(تفسير القرطبي، (9 / 438) .

امام نووی رحمہ اللہ  "المجموع شرح المھذب" میں  تحریر فرماتے ہیں:

"و حكم سجود التلاوة حكم صلاة النافلة يفتقر إلى الطهارة و الستارة واستقبال القبلة لأنها صلاة في الحقيقة."

علامہ ابن قدامہ حنبلی "المغنی" میں  رقم طراز ہیں:

"شرطها الطهارة و استقبال القبلة إلى آخر شروط الصلاة."

مالکیہ کے مشہور متن "مختصر خلیل"  کی "فصل فی سجود التلاوۃ"  میں ہے:

"سجد بشرط الصلاة بلا إحرام وسلام قارىء وَمُسْتَمِعٌ ..."

’’منح الجلیل شرح مختصر خلیل، فصل فی سجدۃ التلاوۃ‘‘ میں ہے:

"( سجد ) ... ( بشرط ) صحة ( الصلاة ) فرضًا كانت أو نفلًا و هو عام لطهارة الحدث، و الخبث، و ستر العورة، و استقبال القبلة ... "

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط ‌الجواز فكل ما ‌هو شرط ‌جواز الصلاة من طهارة الحدث ‌وهي ‌الوضوء ‌والغسل، ‌وطهارة النجس ‌وهي طهارة البدن ‌والثوب، ‌ومكان ‌السجود ‌والقيام ‌والقعود ‌فهو شرط ‌جواز السجدة؛ لأنها جزء من أجزاء الصلاة فكانت معتبرة بسجدات الصلاة ‌."

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وشرائط ‌هذه ‌السجدة شرائط الصلاة إلا التحريمة."

(كتاب الصلاة، مسائل سجدة الشك، ج:1، ص:135، ط: دار الفكر بيروت)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وكان ابن عمر رضي الله تعالى عنهما يسجد على غير وضوء.

هكذا وقع في رواية الأكثرين، وفي رواية الأصيلي، بحذف: غير، وهذا هو اللائق بحاله لأنه لم يوافق ابن عمر أحد على جواز السجود بغير وضوء إلا الشعبي، ولكن الأصح: على غير وضوء، لما روى ابن أبي شيبة من طريق عبيد بن الحسن عن رجل زعم أنه كنفسه عن سعيد بن جبير، قال: (كان ابن عمر ينزل عن راحلته فيهريق الماء ثم يركب فيقرأ السجدة ‌فيسجد ‌وما ‌يتوضأ) ، وذكر ابن أبي شيبة عن وكيع عن زكريا (عن الشعبي في الرجل يقرأ السجدة وهو على غير وضوء، فكان يسجد) . وروى أيضا: حدثنا أبو خالد الأحمر عن الأعمش عن عطاء (عن أبي عبد الرحمن، قال: كان يقرأ السجدة وهو على غير وضوء، وهو على غير القبلة، وهو يمشي فيومىء برأسه إيماء ثم يسلم) . فإن قلت: روى البيهقي بإسناد صحيح عن الليث عن نافع (عن ابن عمر، رضي الله تعالى عنهما، قال: لا يسجد الرجل إلا وهو طاهر) .قلت: وفق بينهما بأن حمل قوله: (طاهر) ، على الطهارة الكبرى، أو يكون هذا على حالة الاختيار، وذلك على حالة الضرورة."

(كتاب سجود القرآن، باب سجود المسلمين مع المشركين والمشرك نجس ليس له وضوء، ج:7، ص:77، ط: دار إحياء التراث العربي، ودار الفكر) - بيروت)

لمعات التنقیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"رواية الأصيلي بحذف (غير)، والصواب إثبات (غير) لأن المعروف عن ابن عمر -رضي الله عنهما- أنه كان يسجد على غير وضوء، فقد جاء عن سعيد بن جبير: كان ابن عمر ينزل عن راحلته فيهريق الماء، ثم يركب فيقرأ السجدة ‌فيسجد ‌وما ‌يتوضأ، كذا قال الكرماني ووافقه الشيخ في (فتح الباري) وقال أيضا: وأما رواية البيهقي بإسناد صحيح عن الليث عن نافع عن ابن عمر -رضي الله عنهما- قال: لا يسجد الرجل إلا وهو طاهر،فيجمع بينهما بأنه أراد بقوله: (طاهر) الطهارة الكبرى، أو الثاني على حالة الإختيار، والأول على الضرورة.وقال الشيخ: ولم يوافق ابن عمر أحد على جواز السجود بلا وضوء إلا الشعبي أخرجه ابن أبي شيبة عنه بسند صحيح، وأخرجه أيضا بسند حسن عن أبي عبد الرحمن السلمي أنه كان يقرأ السجدة ثم يسلم، وهو على غير وضوء إلى غير القبلة، وهو يمشي يومئ إيماء."

(كتاب الصلاة، باب سجود القرآن، ج:3، ص:161، ط: دار النوادر، دمشق - سوريا)

البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاجمیں ہے:

"مسألة اشتراط الطهارة في سجود التلاوة فيها خلافٌ، فقد صحّ عن ابن عمر -رضي اللَّه عنهما-، وغيره عدم اشتراط ذلك، وهو ظاهر مذهب البخاريّ -رَحِمَهُ اللَّهُ-، فإنه ترجم"باب سجود المسلمين مع المشركين، والمشركُ نجسٌ ليس له وضوء"، قال: وكان ابن عمر -رضي اللَّه عنهما- يسجد على غير وضوء. انتهى.ورَوَى ابن أبي شيبة من طريق عُبيد بن الحسن، عن رجل زعم أنه كنفسه، عن سعيد بن جبير، قال: كان ابن عمر -رضي اللَّه عنهما- ينزل عن راحلته، فيهريق الماء، ثم يركب، فيقرأ السجدة، ‌فيسجد، ‌وما ‌يتوضأ.وأما ما رواه البيهقيّ بإسناد صحيح عن الليث، عن نافع، عن ابن عمر، قال: لا يسجد الرجل إلا وهو طاهر، فيجمع بينهما -كما قال الحافظ- بأنه أراد بقوله: "طاهر" الطهارة الكبرى، أو الثاني على حالة الإختيار، والأول على الضرورة.ووافق ابن عمرَ على جواز السجدة بلا وضوء الشعبيُّ، أخرجه ابن أبي شيبة عنه بسند صحيح، وأخرج أيضًا عن أبي عبد الرحمن السُّلَمِيّ أنه كان يقرأ بالسجدة، ثم يسجد، وهو على غير وضوء إلى غير القبلة، وهو يمشي يومئ إيماء.\"

(كتاب المساجد، ومواضع الصلاة، باب سجود التلاوة، ج:13، ص:12، ط: دار ابن الجوزي - الرياض)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100971

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں