بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر تلفظ کے صرف اشارہ سے سلام کرنا


سوال

بعض لوگ سلام کہنے کے ساتھ ہاتھ سے بھی اشارہ کرتے ہیں، اگرچہ سلام کرنے والا اس کے بالکل قریب ہو جس کو وہ سلام کررہاہے، شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فقط اشارے سے سلام کرنا یا اشارہ سے جواب دینا جائز نہیں یہ يهود ونصاری کا طریقہ ہے، حدیث شریف میں اس کی ممانعت آئی ہے، جیسا کہ مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ليس ‌منا ‌من ‌تشبه ‌بغيرنا لا تشبهوا باليهود ولا بالنصارى فإن تسليم اليهود الإشارة بالأصابع وتسليم النصارى الإشارة بالأكف".

(كتاب الآداب، باب السلام، ج:2، ص:412، ط:رحمانيه)

ترجمہ:"حضرت عمرو ابن شيعب  اپنے والد حضرت شعيب سے اور وه اپنے دادا (حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ نہ) سے روايت كرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہمارے غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت کرے گا یعنی ہماری امت کے لوگوں کے برعکس دوسرے مذاہب کے لوگوں کے طریقے پر عمل کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے، تم یہودیوں کی مشابہت کرو اور نہ  عیسائیوں کے ساتھ، یہودیوں کا سلام کرنا انگلیوں کے ذریعے اشارہ کرنے اور عیسائیوں کا سلام کرنا ہتھیلیوں کے ذریعے اشارہ کرنے  کی صورت میں ہوتاہے"۔

(مظاہرحق، ج:4، ص:326، ط:دار الاشاعت)

البتہ اگر جس کو سلام کیا جارہا ہے وہ دور ہے تو اس صورت میں  صیغہٴ سلام کے تلفظ کے ساتھ ہاتھ سے اشارہ بھی کردے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن محض اشارہ کرنا جائز نہیں ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"‌وأقل ‌السلام ‌ابتداء وردا أن يسمع بصاحبه، ولا يجزئه دون ذلك".

(کتاب الآداب، باب بدء السلام، ج:22، ص:230، ط:دارالإحیاء التراث العربی)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"وروى الأعمش عن عمرو بن مرة عن عبد الله بن الحارث قال: إذا سلم الرجل على القوم كان له فضل درجة، فإن لم يردوا عليه ردت عليه الملائكة ولعنتهم. فإذا رد المسلم عليه أسمع جوابه، لأنه إذا لم يسمع المسلم لم يكن جوابا له، ألا ترى أن المسلِّم إذا سلم بسلام لم يسمعه المسلَّم عليه لم يكن ذلك منه سلاما، فكذلك إذا أجاب بجواب ‌لم ‌يسمع ‌منه فليس بجواب. وروي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إذا سلمتم فأسمعوا وإذا رددتم فأسمعوا وإذا قعدتم فاقعدوا بالأمانة ولا يرفعن بعضكم حديث بعض)".

(ج:5، ص:303، ط:دار الكتب العلمية)

اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

"اعلام ضروری ہے، اگر قریب ہو تو اسماع سے اور اگر بعید یا اصمؔ ہو تو اشارہ سے مع تلفظ بلسان کے"۔

(کتاب الحضر والاباحۃ،باب احکام السلام وتعظیمِ اکابر،  ج:9، ص:443، ط:زکریا الہند)

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں