کسی پر بغیر تحقیق کے الزام لگانا کہ فلاں کو ملزم اور قصور وار ٹھہرایا جائے، اس کا کیا حکم ہے؟
بغیر تحقیق اور ثبوت کے کسی پر بھی الزام لگاکر اسے قصور وار ٹھہرانا درست نہیں ہے، اگر اس کا منشا کسی کی عزتِ نفس یا کردار کو مجروح کرنا ہو، یا غیبت و بہتان طرازی ہو تو یہ مستقل کبیرہ گناہ ہیں۔
باقی کسی اختلافی مسئلے میں مدعی کا کسی کے خلاف الزام لگانا کہ فلاں سے یہ جرم ہوا ہے اسے سزا دی جائے، یہ ایک دعویٰ ہے، اور دعوے کی صداقت یا اس کے خلافِ حقیقت ہونے کا علم عدالت میں یا ثالث کے پاس تحقیق کے بعد ہوتاہے، اس لیے اگر مدعی کسی پر الزام لگائے کہ فلاں نے جرم کیا ہے، اسے قصور وار ٹھہرا کر سزا دی جائے، اس دعوے کے بارے میں اس وقت تک حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، جب تک مقدمے یا معاملے کی تحقیق کے تقاضے پورے کرکے حق کے مطابق فیصلہ نہ دے دیا جائے۔ فقط واللہ اعلم
نوٹ: آپ کے سوال کے الفاظ ناقص اور غیر واضح تھے، جس قدر سمجھ آسکا، اس کے مطابق ہم نے سوال کے الفاظ کی تصحیح کرکے اس کی روشنی میں جواب دے دیا ہے، اگر آپ کی مراد کچھ اور ہے تو براہِ مہربانی مکمل وضاحت سے سوال دوبارہ ارسال کردیجیے، سوال ضابطے کے مطابق ہونے کی صورت میں ان شاء اللہ جواب جاری کردیا جائے گا!
فتوی نمبر : 144203201502
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن