بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر تحقیق کے الزام لگاکر کسی کو قصور وار ٹھہرانے کا حکم


سوال

کسی پر بغیر تحقیق کے الزام لگانا کہ فلاں کو ملزم اور  قصور وار ٹھہرایا جائے، اس کا کیا حکم ہے؟

 

جواب

بغیر تحقیق اور ثبوت کے کسی پر بھی الزام لگاکر اسے قصور وار ٹھہرانا درست نہیں ہے، اگر اس کا منشا کسی کی عزتِ نفس یا کردار کو مجروح کرنا ہو، یا غیبت و بہتان طرازی ہو تو یہ مستقل کبیرہ گناہ ہیں۔

باقی کسی اختلافی مسئلے میں  مدعی کا کسی کے خلاف الزام لگانا کہ فلاں سے یہ جرم ہوا ہے اسے سزا دی جائے، یہ ایک دعویٰ ہے، اور دعوے کی صداقت یا اس کے خلافِ حقیقت ہونے کا علم عدالت میں یا ثالث کے پاس تحقیق کے بعد ہوتاہے، اس لیے اگر مدعی کسی پر الزام لگائے کہ فلاں نے جرم کیا ہے، اسے قصور وار ٹھہرا کر سزا دی جائے، اس دعوے کے بارے میں اس وقت تک حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، جب تک مقدمے یا معاملے کی تحقیق کے تقاضے پورے کرکے حق کے مطابق فیصلہ نہ دے دیا جائے۔ فقط واللہ اعلم

نوٹ: آپ کے سوال کے الفاظ ناقص اور غیر واضح تھے، جس قدر سمجھ آسکا، اس کے مطابق ہم نے سوال کے الفاظ کی تصحیح کرکے اس کی روشنی میں جواب دے دیا ہے، اگر آپ کی مراد کچھ اور ہے تو براہِ مہربانی مکمل وضاحت سے سوال دوبارہ ارسال کردیجیے، سوال ضابطے کے مطابق ہونے کی صورت میں ان شاء اللہ جواب جاری کردیا جائے گا!


فتوی نمبر : 144203201502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں