بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر قطار کے سفارش یا جان پہچان کی بنیاد پر یا کسی اور وجہ سے اپنا کام کروانا کیسا ہے؟


سوال

کیا فرماتے علمائے کرام مفتیان عظام درج ذیل مسائل کے بارے میں: 

1۔ کسی شخص کا کسی ایسی جگہ پر جہاں قطار میں انتظار کرکے اپنا کام کروانا ہوتا ہے{مثلاً ہسپتال یا ٹکٹ گھر یا ہوٹل،وغیرہ} وہاں بغیر قطار کے سفارش یا جان پہچان کے ذریعے کام کروانا کیساہے؟

2۔ اگر کلینک یا ہسپتال میں متعلقہ ڈاکٹر خود کسی کو ایمرجنسی میں یا جان پہچان یا سفارش کی بنیاد پر قطار کے درمیان سے بلالے تو کیا یہ درست ہے؟

ڈاکٹر کا اس طرح بلانا اور مریض کا چیک اپ کروانا صحیح ہے؟

3۔ اگر وہ مریض یا اس کے ساتھ آیا ہوا شخص خود عوام کا ایک خادم ہو {مثلاً متعلم یا عالم یا ڈاکٹر یا امام، وغیرہ} اور اسے قطار میں انتظار کرنے سے معمولات میں خلل واقع ہوتا ہو جو یقینا اس سے متعلق تمام عوام کا حرج ہے تو ایسے شخص کے لیے بغیر قطار کے کام کروانا کیسا ہے؟

برائے مہربانی تمام جزئیات کے مکمل اور تفصیلی جوابات عنایت فرمادیں تاکہ کوئی تردد نہ رہ جائے۔

جواب

1۔ صورتِ  مسئولہ میں  جہاں باضابطہ قطار کے ساتھ نمبر وار کام کیا جاتا ہو، وہاں بعد میں آنے والے شخص کے لئے پہلے سے موجود شخص سے پہلے تعلقات کی بنیاد پر کام کروانا ، حق تلفی پر مبنی ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ۔

2۔ 3۔  ایمرجنسی کی وجہ سے بغیر قطار کے ڈاکٹر کے پاس جانا جائز ہے، البتہ محض تعلقات کی بنیاد پر بغیر نمبر کے جانے کی اجازت نہیں، کیوں کہ ایسا کرنا دوسرے مریضوں کی حق تلفی کو مسلتزم ہے، اس لیے کہ شرعی ضابطہ ہے کہ  " الأقدم فالأقدم"  یعنی پہلے آنے والے کا حق بعد میں آنے والے سے مقدم ہے۔

یہ حکم سب کے  لیے ہے، خواہ وہ کسی بھی منصب پر فائز ہو،  البتہ اگر کسی جگہ پر دو قسم کے نمبر دیے جاتے ہوں، ایک ارجنٹ نمبر اور  دوسرا نارمل نمبر، اور  ارجنٹ نمبر والوں  کی باری پہلے آجاتی ہو، تو  اس صورت  میں ارجنٹ نمبر والوں کا پہلے جانا، بقیہ افراد کی حق تلفی کو مستلزم نہ ہوگا، اسی طرح سے  اگر متعلقہ ادارے کے ذمہ داروں کی جانب سے کسی کو پہلے بلوانے کا اختیار دیا گیا ہو  تو اس صورت میں بھی بغیر نمبر کے بلوانے کی اجازت ہوگی۔

مرقاة المفاتيح  شرح  مشكاة  المصابيح  میں ہے:

" ٥١٣٤ - وعن علي - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «إياك ودعوة المظلوم، فإنما يسأل الله تعالى حقه، وإن الله لا يمنع ذا حق حقه» ".

٥١٣٤ - (وعن علي - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إياك ودعوة المظلوم) أي: ولو ذميا (فإنما يسأل الله حقه) أي: سؤال محاسبة ومطالبة (وإن الله لا يمنع ذا حق حقه) أي: بل يعطي كل ذي حق حقه، فإن قوله حق ووعد صدق وفعله عدل، ثم بعده فضل."

( كتاب الآداب، باب الظلم، ٨ / ٣٢٠٦، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" مطلب فيمن سبقت يده إلى مباح

وفي شرح السير الكبير للسرخسي: وكذا كل ما يكون المسلمون فيه سواء كالنزول في الرباطات، والجلوس في المساجد للصلاة، والنزول بمنى أو عرفات للحج، حتى لو ضرب فسطاطه في مكان كان ينزل فيه غيره فهو أحق، وليس للآخر أن يحوله، فإن أخذ موضعا فوق ما يحتاجه فللغير أخذ الزائد منه، فلو طلب ذلك منه رجلان فأراد إعطاء أحدهما دون الآخر فله ذلك؛ ولو نزل فيه أحدهما فأراد الذي أخذه أولا وهو غني عنه أن ينزل فيه آخر فلا لأنه اعترض على يده يد أخرى محقة لاحتياجها، إلا إذا قال إنما كنت أخذته لهذا الآخر بأمره لا لنفسي.

فإذا حلف على ذلك له إخراجه لأنه تبين أن يده فيه كانت يدا آمرة وحاجة الآمر تمنع غيره من إثبات اليد عليه اهـ ملخصا. قال الخير الرملي: ومثل المسجد مقاعد الأسواق التي يتخذها المحترفون من سبق لها فهو الأحق بها، وليس لمتخذها أن يزعجه إذ لا حق له فيها ما دام فيها، فإذا قام عنها استوى هو وغيره فيها."

( كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، مطلب فيمن سبقت يده إلى مباح، ١ / ٦٦٢، ط: دار الفكر)

شرح السير الكبير لشمس الأئمة السرخسي میں ہے:

"وهذا الحكم الذي ذكرنا في كل ما يكون للمسلمين فيه حق، كالنزول في الرباطات والجلوس في المساجد لانتظار الصلوات، والنزول بمنى أو عرفات للحج، حتى إذا ضرب رجل فسطاطا في مكان وقد كان ذلك المكان ينزل فيه غيره قبل ذلك ومعروف بذلك، فالذي بدر إلى ذلك المنزل أحق به، وليس للآخر أن يحوله منه؛ لأن يده سبقت إليه، والإحراز في المباح يحصل بسبق اليد، كالصيد والحطب والحشيش. فإن كان أخذ من ذلك موضعا واسعا فوق ما يحتاج إليه فلغيره أن يأخذ منه ناحية لا يحتاج هو إليها فينزلها معه، لأنه باعتبار سبق يده إنما صار أحق به لحاجته. ولو طلب ذلك منه رجلان كل واحد منهما يحتاج إلى أن ينزل فيه فأراد الذي بدر إليه أن يعطيه أحدهما دون الآخر كان له ذلك؛ لأن حاجة من اختاره كحاجته - وعند قيام حاجته هو أحق به باعتبار يده، فكذلك عند قيام حاجة من اختاره؛ لأنه قد يرغب في مجاورة بعض الناس دون البعض، ويعد الإنسان ذلك من حوائجه، والدليل عليه حديث الزبير - رضي الله تعالى عنه -، فإنه كان يسبق الناس إلى المنازل، فيجعل على كل موضع علامة فإذا جاء أصحابه أعطاهم تلك المنازل التي كان أخذها. ولو بدر إليه أحدهما فنزل فأراد الذي كان أخذه في الابتداء وهو عنه غني أن يخرجه عنه وينزله محتاجا آخر لم يكن له ذلك؛ لأن هذا الرأي كان له باعتبار يده، وقد اعترض عليهما يد أخرى هي محقة باعتبار حاجة صاحبها، فليس له ولاية إبطالها عليه."

( باب ما يتبايع أهل الإسلام بينهم مما يأخذونه من الأطعمة والأعلاف، ص: ١٢٢٤ - ١٢٢٥، ط: الشركة الشرقية للإعلانات)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں