ایک شخص نے چند جگہیں بغیر کسی متعین نیت کے خریدیں، بعد میں یہ ارادہ کرلیا کہ وہ جگہیں اپنے بچوں کے لیے رکھ لے گا، اب ان جگہوں پر کیا زکات لازم ہوگی یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر خريد نے والے شخص نے مذکورہ جگہیں بغیر کسی خاص نیت کے خریدیں تھیں اور اب بچوں کے لئے رکھنے کی نیت کرلی ہے تو مذکورہ جگہوں کی مالکیت پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
’’ثم نیة التجارة والإسامة لاتعتبرمالم تتصل بفعل التجارة والإسامة ... ولو اشتری عروضاً للبذلة والمهنة ثم نوی أن تکون للتجارة بعد ذلک لاتصیر للتجارة مالم یبعها فیکون بدلها للتجارة؛ لأن التجارة عمل فلاتتم بمجرد النیة، بخلاف ما إذا کان للتجارة فنوی أن تکون للبذلة خرج عن التجارة بالنیة وإن لم یستعمله لأنها ترک العمل‘‘.
(کتاب الزکاۃ،366،67/2،ط:دارالکتب العلمیة)
الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:
"أما العقار الذي يسكنه صاحبه أو يكون مقراً لعمله كمحل للتجارة ومكان للصناعة، فلا زكاة فيه."
(الباب الرابع :الزكوة و أنواعها،الفصل الأول: الزکوۃ، المبحث الخامس: أنواع الأموال التي تجب فيها الزكوة، المطلب الثالث: زكوة عروض التجارة،787/2،ط:دارالفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144409100064
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن