بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر کسی عذر کے نفل اور سنت نماز بیٹھ کر پڑھنے کا حکم


سوال

کیا بغیر کسی شرعی عذر کےسنت اور نفل نماز بیٹھ کے پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نفل نماز  بلا عذر بھی بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے، قیام پر قدرت ہونے کے باوجود نفل نماز بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں، البتہ بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں ثواب کھڑے ہوکر پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ملے گا۔

نیز سنتوں میں  سننِ غیر مؤکدہ نفل ہی کے حکم میں ہیں (جیسا کہ عشاء اور عصر سے پہلے کی چار سنتیں)،  جب کہ سننِ مؤکدہ (جیسا کہ ظہر میں چھ، مغرب اور عشاء کے بعد کی دو سنتیں اور تراویح وغیرہ)  کھڑے ہوکر ہی پڑھنی چاہییں؛  الا یہ کہ  کوئی عذر لاحق ہو۔

جب کہ فرض اور واجب  نماز میں جو شخص قیام پر قدرت رکھتا ہو اس کے لیے  قیام فرض ہے، بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں، نیز فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے ان میں بھی قیام ضروری ہے، قیام پر قدرت کی صورت میں انہیں بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي بريدة قال:حدثني عمران بن حصين، وكان مبسورا، قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعدا، فقال: (‌إن ‌صلى ‌قائما ‌فهو ‌أفضل، ومن صلى قاعدا فله نصف أجر القائم، ومن صلى نائما فله نصف أجر القاعد) ."

(أبواب تقصير الصلاة، باب: صلاة القاعد، ج: 1، ص: 375، رقم: 1064، ط: دار اليمامة - دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومنها القيام)... (في فرض) وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح.

(قوله وسنة فجر في الأصح) أما عن القول بوجوبها فظاهر، وأما على القول بسنيتها فمراعاة للقول بالوجوب. ونقل في مراقي الفلاح أن الأصح جوازها من قعود ط.

أقول: لكن في الحلية عند الكلام على صلاة التراويح لو صلى التراويح قاعدا بلا عذر، قيل لا تجوز قياسا على سنة الفجر فإن كلا منهما سنة مؤكدة وسنة الفجر لا تجوز قاعدا من غير عذر بإجماعهم كما هو رواية الحسن عن أبي حنيفة كما صرح به في الخلاصة فكذا التراويح، وقيل يجوز والقياس على سنة الفجر غير تام فإن التراويح دونها في التأكيد فلا تجوز التسوية بينهما في ذلك. قال قاضي خان وهو الصحيح. اهـ."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صفة الصلاة، ج: 1، ص: 444، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"(ويتنفل مع قدرته على القيام قاعدا) لا مضطجعا إلا بعذر (ابتداء و) كذا (بناء) بعد الشروع بلا كراهة في الأصح كعكسه بحر. وفيه أجر غير النبي صلى الله عليه وسلم على النصف إلا بعذر.

(قوله ويتنفل إلخ) أي في غير سنة الفجر في الأصح كما قدمه المصنف، بخلاف سنة التراويح لأنها دونها في التأكد، فتصح قاعدا وإن خالف المتوارث وعمل السلف كما في البحر، ودخل فيه النفل المنذور فإنه إذا لم ينص على القيام لا يلزمه القيام في الصحيح، كما في المحيط. وقال فخر الإسلام: إنه الصحيح من الجواب، وقيل يلزمه واختاره في الفتح نهر (قوله قاعدا) أي على أي حالة كانت، وإنما الاختلاف في الأفضل كما يأتي."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص: 37،36، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں