بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باغات کو متعین مدت کے لیے ٹھیکہ پر دینے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں لوگ اپنی باغات والی زمین(یعنی پھل دار درخت اور زمین دونوں کرایہ پر دیتے ہیں)، متعین مدت (تین یا چارسال)کے لیے متعین قیمت پر بطور اجارہ (ٹھیکہ)کے دیتے ہیں،اس پورے عرصہ کے دوران باغ وغیرہ کرایہ دار سنبھالتا ہےاوراس کے پھل،درخت وغیرہ بھی اسی کے ہوتے ہیں(یعنی وہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے)، باغ کے مالک کا دورانِ اجارہ،زمین یا درختوں یاپھلوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ،بس وہ مقررہ وقت پر آکر اپنی کرایہ کی رقم کرایہ داروں سے وصول کرتا ہے،اب سوال یہ ہے کہ اس قسم کامعاملہ درست ہے یا نہیں؟

یاد رہے کہ بسا اوقات قدرتی آفات کی وجہ سے باغات کونقصان پہنچتا ہے،ایسی صورت میں کرایہ داروں  سے کرایہ وصو ل کرنادرست ہوگا یا نہیں؟

نیزبہت دفعہ کرایہ دار اپنی خوشی ورضامندی سے مالکِ زمین کو کچھ پھل یا کچھ لکڑیاں گفٹ کرتے ہیں تو کیا مالکِ زمین کے لیے یہ گفٹ قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟،کبھی کبھار باغ کا مالک یہ شرط لگاتا ہے کہ کرایہ دار اس کو ایک خاص مقدار میں پھل اورلکڑیاں دے گا، ایسی صورت میں اس کا کیا حکم ہے؟

ازراہ کرم شریعت کی روشنی  میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

جواب

1۔واضح رہے کہ:"عقدِاجارہ"کے ذریعہ کسی چیز کے منافع اور سہولیات کو حاصل کیاجاسکتاہے،کسی چیز کےعین اورذات کو حاصل نہیں کیاجاسکتا؛لہٰذا باغات کو اس طور پر کرایہ پر دینا کہ:"کرایہ دار اس کے درختوں  کی لکڑیوں اور پھلوں کواستعمال میں لاکر اس سے فائدہ اٹھائے گا"جائز نہیں ہے؛کیوں کہ اس معاملہ میں درختوں اورپھلوں کے "عین" کوکرایہ پرلیاجاتاہے، نہ کہ اس کے"منافع "کو،اوراجارہ میں "عین"کوکرایہ پرلیناجائز نہیں ہے،اس لیے اس قسم کے معاملات  شرعاً باطل ہیں، اس سے اجتناب ضروری ہے۔

نیزباغات کی زمین کو بھی کرایہ(ٹھیکہ)پردیناجائز نہیں ہے؛کیوں کہ باغات کی زمین مالک کے درختوں کے ساتھ مشغول ہیں،اس میں مالک کے درخت لگے ہوئے ہیں اورایسی زمین  کہ:" جو مالک کے درختوں وغیرہ کے ساتھ مشغول ہو" کو کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے،لہٰذا باغات کومذکورہ طریقہ کے ساتھ کرایہ(ٹھیکہ)پردیناجائز نہیں ہے۔

البتہ جواز کا ایک حیلہ یہ ہے کہ پہلے باغ، مساقاۃ یعنی حصۂ معینہ( مثلاًپیداوار کے ایک تہائی حصہ یا نصف وغیرہ)  پر دیدے، پھر اسی شخص کو باغ کی زمین اجارہ پر دیدے، اور جو حصہ باغ کے مالک نے باغ کے پیداوار میں اپنے لیے رکھا تھا، وہ کرایہ دار کے لیے مباح کرکے اُسے بخش دے،یا مساقی کو اجازت دیدے کہ وہ حصہ اس باغ کے اخراجات میں لگادے۔

دوسرا حیلہ یہ ہے کہ پہلے مالک، درختوں کو مساقاۃ(بٹائی) پر اس شرح سے دیدےکہ ایک ہزار میں سے ایک حصہ مالک کا، اور باقی تمام حصے مُساقی(بٹائی کرنے والے)  کے، اور اس کے بعد اُسی شخص کو وہ زمین اتنے کرایہ پر دیدے کہ جو زمین کے کرایہ اور پھلوں کی قیمت کے برابر ہو(یعنی مارکیٹ میں عموماً باغ کی جو قیمت ہواتنی رقم میں کرایہ پر دیدے)،لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ زمین زراعت کے قابل ہو،ورنہ زمین کو کرایہ پر دینا صحیح نہیں ہوگا۔

2،3۔مذکورہ صورت میں چونکہ اجارہ کا معاملہ شرعاًمنعقدہی نہیں ،بلکہ باطل ہے؛لہٰذاباغ  کےدرختوں اور پھلوں  پر اس کے مالک کا ہی حق ہے،کرایہ دار کااس میں کوئی حق نہیں،اور کرایہ دار اپنے کرایہ کا مالک ہے ،باغ کے مالک  کواس سے کرایہ کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما معنى الإجارة فالإجارة بيع المنفعة لغة ولهذا سماها أهل المدينة بيعا وأرادوا به بيع المنفعة۔۔۔وإذا عرف أن الإجارة بيع المنفعة فنخرج عليه بعض المسائل فنقول: لا تجوز إجارة الشجر والكرم للثمر؛ لأن الثمر عين والإجارة بيع المنفعة لا بيع العين، ولا تجوز إجارة الشاة للبنها أو سمنها أو صوفها أو ولدها؛ لأن هذه أعيان فلا تستحق بعقد الإجارة، وكذا إجارة الشاة لترضع جديا أو صبيا لما قلنا، ولا تجوز إجارة ماء في نهر أو بئر أو قناة أو عين لأن الماء عين فإن استأجر القناة والعين، والبئر مع الماء لم يجز أيضا؛ لأن المقصود منه الماء وهو عين، ولا يجوز استئجار الآجام التي فيها الماء للسمك، وغيره من القصب والصيد؛ لأن كل ذلك عين فإن استأجرها مع الماء فهو أفسد وأخبث؛ لأن استئجارها بدون الماء فاسد فكان مع الماء أفسد ولا تجوز إجارة المراعي؛ لأن الكلأ عين فلا تحتمل الإجارة، ولا تجوز إجارة الدراهم، والدنانير ولا تبرهما وكذا تبر النحاس والرصاص ولا استئجار المكيلات والموزونات؛ لأنه لا يمكن الانتفاع إلا بعد استهلاك أعيانها، والداخل تحت الإجارة المنفعة لا العين."

(کتاب الإجارۃ،فصل في ركن الإجارة ومعناها، 4/174،175، ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:

"أما تفسيرها شرعافهي عقد على المنافع بعوض كذا في الهداية."

(کتاب الإجارۃ،الباب الأول في تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها وبيان أنواعها وحكمها وكيفية انعقادها وصفتها، 4/409، ط: دارالفکر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الإجارة الباطلة، وهي التي فاتها شرط من شرائط الانعقاد فلا حكم لها رأسا؛ لأن ما لا ينعقد فوجوده في حق الحكم وعدمه بمنزلة واحدة، وهو تفسير الباطل من التصرفات الشرعية كالبيع ونحوه."

(کتاب الإجارۃ،فصل في حكم الإجارة ،4/218، ط: دارالکتب العلمیة)

وفیه أیضاً:

"ومنها تسليم المستأجر في إجارة المنازل ونحوها إذا كان العقد مطلقا عن شرط التعجيل عندنا حتى لو انقضت المدة من غير تسليم المستأجر لا يستحق شيئا من الأجر ولو مضى بعض المدة ثم سلم فلا أجر له فيما مضى."

(کتاب الإجارۃ،الباب الأول في تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها وبيان أنواعها وحكمها وكيفية انعقادها وصفتها، 4/411، ط: دارالفکر)

وفیه أیضاً:

"ولو استأجر أرضا فيها زرع أو كرم يمنع الزراعة فهي فاسدة فإن قلع وسلمها إلى المستأجر جاز لأنه زال المانع ۔۔۔ ولو استأجر أرضا فيها رطبة سنة فالإجارة فاسدة عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى فإن قلع رب الأرض الرطبة وقال للمستأجر اقبض الأرض بيضاء فهو جائز ۔۔۔۔ثم الزرع إذا لم يدرك فأراد جواز الإجارة في الأرض فالحيلة في ذلك أن يدفع الزرع إليه معاملة إن كان الزرع لرب الأرض على أن يعمل المدفوع إليه في ذلك بنفسه وأجرائه وأعوانه على أن ما رزق الله تعالى من الغلة فهو بينهما على مائةٍ، سهم من ذلك للدافع وتسعة وتسعون سهما للمدفوع إليه ثم يأذن له الدافع أن يصرف السهم الذي له إلى مؤنة هذه الضيعة أو إلى شيء أراد ثم يؤاجر الأرض منه۔۔۔وكذلك الحيلة في الشجر والكرم يدفع الشجر والكرم معاملةّ كذا في المحيط."

(کتاب الإجارۃ، الباب الخامس عشر في بيان ما يجوز من الإجارة وما لا يجوز، الفصل الرابع في فساد الإجارة إذا كان المستأجر مشغولا بغيره، 4/446،447،ط:دارالفکر)

الدر مع الرد میں ہے:

وأفاد فساد ما يقع كثيرا من أخذ كرم الوقف أو اليتيم مساقاة،فيستأجر أرضه الخالية من الأشجار بمبلغ كثير، ويساقي على أشجارها بسهم من ألف سهم، فالحظ ظاهر في الإجارة لا في المساقاة فمفاده فساد المساقاة بالأولى؛ لأن كلا منهما عقد على حدة.

وفي الرد:(قوله وأفاد) أي المصنف حيث قال بعد عبارة الخانية: قلت يستفاد من هذا فساد ما يقع إلخ (قوله فيستأجر أرضه الخالية) أي بياضها بدون الأشجار، وإنما لا يصح استئجار الأشجار أيضا لما مر أنها تمليك منفعة، فلو وقعت على استهلاك العين قصدا فهي باطلة.

قال الرملي: وسيأتي في إجارة الظئر أن عقد الإجارة على استهلاك الأعيان مقصود كمن استأجر بقرة ليشرب لبنها لا يصح، وكذا لو استأجر بستانا ليأكل ثمره.

قال: وبه علم حكم إجارات الأراضي والقرى التي في يد المزارعين لا كل خراج المقاسمة منها، ولا شك في بطلانها والحال هذه، وقد أفتيت بذلك مرارا اهـ(قوله بمبلغ كثير) أي بمقدار ما يساوي أجرة الأرض وثمن الثمار (قوله ويساقي على أشجارها) يعني قبل عقد الإجارة وإلا كانت إجارة الأرض مشغولة فلا تصح كما سيأتي.وفي مسائل الشيوع من البزازية: استأجر أرضا فيها أشجار أو أخذها زراعة وفيها أشجار، إن كان في وسطها لا يجوز إلا إذا كان في الوسط شجرتان صغيرتان مضى عليهما حول أو حولان لا كبيرتان؛ لأن ورقهما وظلهما يأخذ الأرض والصغار لا عروق لها، وإن كان في جانب من الأرض كالمسناة والجداول يجوز لعدم الإخلاء اهـ.

(کتاب الإجارۃ، 6/6۔8، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعویٰ، ج6، ص264، ط:دارالكتب العلمية)

وفیه أیضاً:

"حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة."

(کتاب الدعوٰی، فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل، 6/263، ط: دارالکتب العلمیة)

عنایہ میں ہے:

"(والمساقاة هي المعاملة) بلغة أهل المدينة: ومفهومها اللغوي هو مفهومها الشرعي فهي معاقدة دفع الأشجار والكروم إلى من يقوم بإصلاحها على أن يكون لهم سهم معلوم من ثمرها."

(کتاب المساقاة، 9/479، ط: دارالفکر)

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري میں ہے:

"المساقاة دفع النخل والكرم والأشجار المثمرة معاملة بالنصف أو بالثلث أو بالربع قل أو كثر وأهل المدينة يسمونها المعاملة."

(کتاب المساقاۃ، 1/373، ط: المطبعة الخیریة)

شرح النووي على مسلم میں ہے:

"قوله (أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع وفي رواية على أن يعتملوها من أموالهم ولرسول الله صلى الله عليه وسلم شطر ثمرها۔۔۔قوله (بشطر ما يخرج منها) فيه بيان الجزء المساقى عليه من نصف أو ربع أو غيرهما من الأجزاء المعلومة فلا يجوز على مجهول كقوله على أن لك بعض الثمر واتفق المجوزون للمساقاة على جوازها بما اتفق المتعاقدان عليه من قليل أو كثير۔۔۔الخ."

(كتاب البيوع،باب كراء الأرض،10/208۔210،ط:داراحیاءالتراث العربی)

احسن الفتاوٰی میں ہے:

"سوال:آج کل  باغ ٹھیکہ پردینے کا جیساعام دستور ہے،اس کی جواز کی کوئی صورت ہے یا نہیں؟

جواب:پہلے باغ مساقاۃ یعنی حصۂ معینہ پردیدے،پھراسی شخص کو باغ کی زمین مقاطعہ پردیدے اور باغ کے پھل میں جو حصہ مالک نے رکھا تھا وہ مقاطعہ دار کے لیے مباح کردے۔"

(أحسن الفتاوٰی،کتاب الاجارۃ،7/267،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں