بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا عذر گھر میں جماعت کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص تہجد کے لیے اٹھا اور تہجد  ادا کی اور 5:55 پر وقت ختم ہوگیا اور فجر کی جماعت 6:40  پرہے  لیکن نیند کا غلبہ اتنا ہے کہ جاگنے کی ہمت نہیں اور اگر سوگیا تو نماز فجر قضاء ہونے کاخطرہ ہے،اس صورت میں وقت داخل ہوتے ہی فجر کی جماعت بھائی یا اہلیہ یا کسی بھی محرم کے ساتھ کروانا کیسا ہے؟

جواب

  صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے تہجد پڑھنے کی بناء پر مستقل فجر کی جماعت گھر میں کروانا مسجد کی حق تلفی اور گناہ ہے ،   اور اگر کبھی کسی وجہ سے جماعت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو یا مسجد میں جماعت ہوجائے تو اپنی اہلیہ یا کسی محرم کے ساتھ  گھر میں ہی جماعت کرانا جائز ہے ۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"(سوال۱۱۷۲) میاں بیوی کی جماعت درست ہے یا نہیں ۔

(الجواب ) میاں بیوی کی جماعت اس طرح کہ دونوں برا بر کھڑے ہوں جیسا کہ ایک مقتدی ہونے کی صورت میں حکم ہے درست نہیں ہے ۔ اس صورت میں کسی کی نماز نہ ہوگی ۔(۲) فقط ۔لیکن اگر عورت کے قدم پیچھے ہوں تو درست ہے۔"

(فتاوی دارالعلوم دیوبند، جلد:3 )

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"مسجد قریب موجود ہو اور پھر وہاں کی جماعت بلا عذر ترک کرکے مکان پر کوئی شحص اپنی نماز پڑھ لے تو اگرچہ فرض ادا ہوجاتا ہے، مگر یہ بہت بڑی محرومی ہے، حدیث پاک میں ہے:"مسجد کے قریب رہنے کی والے نماز نہیں ہوتی مگر صرف مسجد میں۔اگر مسجد میں جاکر معلوم ہوا کہ جماعت ہوچکی ہے تو اپنے مکان پر اہل وعیال کو لے کر جماعت کرلی جائے، مسجد کی جماعت کا مستقلاً ترک کرنا گناہ ہے۔"

(فتاویٰ محمودیہ:6/417،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

'' عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سمع المنادي فلم يمنعه من اتباعه، عذر»، قالوا: وما العذر؟، قال: «خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلاة التي صلى۔"

ترجمہ:"حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو مؤذن کی آواز سنے اور کسی عذر کے نہ ہونے کے باوجود مسجد کو  نہ جائے (بلکہ گھر میں ہی نماز پڑھ لے)  تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔صحابہ نے پوچھا: عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خوف (یعنی دشمن کا) یا مرض۔"

(کتاب الصلوٰۃ، باب التشدید فی ترك الجماعة، ج:1، ص:151، ط: المکتبۃ العصریة بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج، وإذا فاتته الجماعة لا يجب عليه الطلب في مسجد آخر بلا خلاف بين أصحابنا لكن إن أتى مسجدا آخر ليصلي بهم مع الجماعة فحسن وإن صلى في مسجد حيه فحسن وذكر القدوري أنه يجمع في أهله ويصلي بهم وذكر شمس الأئمة الأولى في زماننا إذا لم يدخل مسجد حيه أن يتبع الجماعات وإن دخله صلى فيه."

(کتاب الصلوٰۃ،الفصل الاول فی الجماعة ، ج:1، ص:82 ، ظ:رشیدیه)

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله من غير حرج) قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها ولكنه يفوته الأفضل بدليل «أنه - عليه الصلاة والسلام - قال لابن أم مكتوم الأعمى لما استأذنه في الصلاة في بيته: ما أجد لك رخصة» قال في الفتح: أي تحصل لك فضيلة الجماعة من غير حضورها لا الإيجاب على الأعمى، لأنه - عليه الصلاة والسلام - رخص لعتبان بن مالك في تركها۔"

(باب الامامة، ج:1، ص:554،ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307100056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں