بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجہ کا بغیر کسی شرعی عذر علیحدگی کا مطالبہ کرنا


سوال

میری بیوی یتیم تھی اس کے تین بھائی تھے جو کہ جائیداد کی وجہ سے اس کی شادی نہیں کر رہے تھے، اس کی عمر 38 سال ہو گئی تھی، ہماری ملاقات میرج بیورو نے کروائی تھی ،تمام تر حالات و واقعات شادی سے پہلے بیوی نے بتائے تھے ،میں نے بھی اپنی زندگی کے بھی تمام تر حالات اس کو بتائے تھے ،میں نے اس پر یقین کرتے ہوئے اور اتفاق کرتے ہوئے اس کے ساتھ شرعی نکاح کر لیا اور اس کو گھر لے آیا اور اس کے تمام تر حقوق ادا کیے،علاوہ ازیں اپنے تمام تر خاندان سے ملوایا۔ مجھے اس نے یقین دلایا تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کو نکاح کا بتا دے گی، چونکہ وہ پہلے ہاسٹل میں رہتی تھی، لہذا وہاں سے میرے گھر شفٹ ہو گئی، لیکن ہاسٹل میں اپنا نام موجود رکھا کہ بھائی یا بھابھی اگر آئے تو ملاقات کے لئے بات واضح کرنے کے لیے جگہ میسر ہو۔ میں نے تمام تر حقوق پورے کیے۔ ابھی تین ماہ گزرے ہیں تو میری بیوی نے بلاجواز علیحدگی کا مطالبہ کر دیا ہے اس صورتحال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورت مسئولہ میں میاں بیوی  کو چاہیے کہ نکاح جیسے مقدس رشتے کو قائم رکھیں اور باہم صلح کرکے گھر بسانے کی کوشش کریں، اگر باہم صلح ممکن نہ ہو تو زوجین کو چاہیے کہ خاندان کے معززین کے ساتھ مل کر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں، تاہم اگر سارے اسباب اختیار کرنے کے باوجود  نباہ کی کوئی بھی صورت ممکن نہ ہو اور زوجین کے مابین علیحدگی ناگزیر ہو تو اس صورت میں نکاح کو ختم کیاجاسکتاہے، اور اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ سائل اپنی بیوی کو اس کی پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دے دے، مزید کوئی طلاق نہ دے اور رجوع بھی نہ کرے، اس کے بعد مطلقہ (سائل کی زوجہ) کی عدت یعنی پوری تین ماہواری کے گزرنے کے بعد نکاح ختم ہو جائے گا، تاہم اگر زوجین کے مابین ایک طلاق کے بعد دوبارہ ساتھ رہنے کی کوئی ترتیب بن جائے تو تین ماہواری کے گزرنے سے پہلے سائل قولاً یا عملاً رجوع کر لے تو نکاح برقرار رہے گا لیکن اگر مطلقہ کی تین ماہواری گزر چکی ہوں اور پھر ساتھ رہنے کی کوئی ترتیب بن جائے تو اس صورت میں دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کیاجائے، نکاح منعقد ہوجائے گا ،البتہ دونوں صورتوں میں آئندہ کے لئے سائل کو دو طلاق کا حق ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت فنوعان حسن وأحسن فالأحسن أن يطلق امرأته واحدة رجعية في طهر ‌لم ‌يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها."

(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه، الطلاق السني: 1/ 348، ط: سعید)

فتح القدير للكمال ابن الهمام ہے:

"قال (الطلاق على ثلاثة أوجه: حسن، وأحسن، وبدعي. ‌فالأحسن ‌أن ‌يطلق الرجل امرأته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها)؛ لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم كانوا يستحبون أن لا يزيدوا في الطلاق على واحدة حتى تنقضي العدة فإن هذا أفضل عندهم من أن يطلقها الرجل ثلاثا عند كل طهر واحدة؛ ولأنه أبعد من الندامة وأقل ضررا بالمرأة ولا خلاف لأحد في الكراهة."

(‌‌كتاب الطلاق: 3/ 466، ط: دار الفكر، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں