بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر کسی شرعی ضرورت کے نامحرم سے بات چیت کرنا جائز نہیں ہے


سوال

شادی شدہ عورت یا مرد کا کسی غیر مرد یا عورت سے روز گھنٹوں موبائل پر بات کرنے کا کیا حکم ہے اگر چہ وہ ایک دوسرے کو بھائی بہن سمجھتے ہوں؟ اور اگر دوست سمجھتے ہو تب کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی مرد کا نا محرم عورت سے اور کسی بھی عورت کا نامحرم مرد سے بے جا رابطہ رکھنا اور بغیر کسی ضرورت کے فون پر گھنٹوں گھنٹوں گفتگو اور بے تکلفی کرنا شرعاً ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہونے کے ساتھ ساتھ  بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہونے کا پیش خیمہ بھی ہے، لہٰذا اس  گناہ کبیرہ سے توبہ اور اجتناب کرنا لازم ہے،کیونکہ یہ عمل فتنہ کا موجب ہے، لہٰذا جہاں ضرورت ہو وہاں بھی پردے کے اہتمام کے ساتھ صرف بقدرِ ضرورت گفتگو کی جائے، اور جانبین سے لہجے سنجیدہ رہیں، خصوصًا عورت اپنے لہجے میں نرمی نہ لائےنیز اجنبی مرد و عورت کا ایک دوسرے کو بھائی بہن سمجھنے سے شرعاً وہ حقیقی بھائی بہن نہیں بن جاتے،یہ شیطانی دھوکہ ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"و لايكلم الأجنبية إلا عجوزاً عطست أو سلّمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا۔ انتهى.

(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزاً بل شابةً لا يشمّتها، ولا يرد السلام بلسانه۔ قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلّم الرجل أولاً، وإذا سلّمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزاً رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابةً رد عليها في نفسه، و كذا الرجل إذا سلّم على امرأة أجنبية، فالجواب فيه على العكس. اهـ."

( الدر المختار مع رد المحتار : ص: 555 ، كتاب الحظر والإباحة، باب الإستبراء وغيرها، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144401101368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں