بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر کسی کو بتائے خفیہ طور پر نکاح کے بعد طلاق دینے کا حکم


سوال

 2020 میں دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو ا، بغیر کسی کو بتائے چوری چپکے سےاور لڑکی کی رخصتی بھی نہیں ہوئی، 2021 میں شوہر کو بہن کے گھر جانا تھا ،مگر عورت نے  جانے سے منع کر دیا اور بولا کہ اگر جانا ہو تو طلاق دے کر جاؤ،ایسے وقت میں شوہر  نے اس کو بول دیا کہ ہاں تجھے طلاق ہے،مگر شوہر کی اس میں کوئی نیت نہیں تھی،ان کو اب یاد بھی نہیں کہ کتنی مرتبہ طلاق کہا گیا تھا ، اسی دوران 4 دنوں میں ہی شوہر بیوی سے رجوع ہو جاتا ہے، پھر اس کے 8 مہینوں بعد شوہر کے گھر والوں کے سامنے دوبارہ یہ لوگ نکاح کر لیتے ہیں،تاکہ سب کو معلوم ہو کے اب نکاح ہوا ہے۔ان دونوں نکاح میں شوہر نے مہر ادا نہیں کیا اور عورت نے اسے مہر معاف کر دیا تو کیا ایسی صورت میں طلاق ہو گئی تھی ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں   2020 میں پہلی مرتبہ   اگر نکاح ایک مجلس  میں دوگواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب وقبول کے ساتھ ہو اتھا تو  یہ نکاح شرعًا منعقد ہوگیا تھا ۔

اس کے بعد 2021 میں  شوہر نے اپنی بیوی کو کہا کہ ’’ہاں تجھے طلاق ہے ‘‘ تو اس سے بیوی پر طلاق واقع ہوگئی تھی ،اگر چہ شوہر کی نیت طلاق دینے کی نہ ہو ،نیز اگر نکاح کے بعد دونوں میاں بیوی میں خلوت صحیحہ نہیں ہوئی  تھی توایک طلاق ِبائن واقع ہوئی تھی اور اگر خلوتِ صحیحہ ہوگئی تھی تو جتنی مرتبہ شوہر نے طلاق کے الفاظ کہے تھی اتنی طلاقیں واقع ہوئیں تھیں، ایک یا دو  طلاق  واقع ہونے کی صورت میں دوبارہ نکاح کرنا درست ہے ،اور اگر تین طلاقیں  دے دی تھیں تو دوبارہ کیا گیا نکاح شرعًا منعقد نہیں ہوا ،مطلقہ بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے ۔

قرآن مجید میں ہے:

"{ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ... فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}."

[البقرة: 229، 230]

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

و في الرد : (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً".

(کتاب النکاح: 3 / 14، ط: سعید)

وفيه أيضا:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معًا) على الأصح".

 (كتاب النكاح، ج: 3، ص: 21، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، 187/3، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية." 

( كتاب الطلاق، الباب السادس فی الرجعۃ وفیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ، فصل فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ ،ج:۱،ص:۴۷۳، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں