بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شاملات زمین کوعیدگاہ بنانے کا حکم


سوال

 ہمارے ہاں آبادی کے اندر ایک نا معلوم مدت سے بڑی شاملات  زمین  (گاؤں کے ارد گرد ایسی غیر آباد زمین جو سارے گاؤں والوں کی مشترکہ ضروریات کے لیے استعمال ہوتی ہے مثلاً گھاس اور لکڑی وہاں سے حاصل کی جاتی ہے اور جانوروں کو وہاں  چرایا جاتا )ہے ،جو فی الحال کھیل کود کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس زمین پر چند علماء کرام نے عید کی نماز شروع کی ہے، اس حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات بیان طلب ہیں:

سوال نمبر 1 : کیا شہری علاقے میں آبادی کے اندر ایک شاملات زمین پر بطورِ عید گاہ نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

2: اگر شاملات زمین کے ملکیتی دعوےداروں میں سے کوئی ایک اس زمین  کوعید گاہ کے طور استعمال کرنے میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرے ،یا کہے کہ  میری اجازت نہیں کہ اس جگہ کو عید گاہ کے طور استعمال کیا جائے، مگر میں زبانی طور پر بدنامی کے ڈرسے کچھ نہیں کہتا " تو کیا اس صورت میں نماز عید جائز ہو گی یا نہیں؟ اور کیا یہ اجازت سمجھی جائےگی یا نہیں ؟اور  کیا اس گراونڈ ( شاملاتِ زمین ) کو حکما عید گاہ کی حیثیت حاصل ہوگی یا نہیں ؟ 

سوال نمبر 3 : کیا اس شاملات زمین پر اگر نماز جناز ہ  عرصہ درازسےپڑھایا جاتا ہو اور کسی نے بھی اعتراض نہ کیا ہو، مگر عید کی نماز کے لیے استعمال کرنے پر ملکیتی دعوےداروں میں سے چند یا ایک فرد نے اعتراض کیا ہو، تو کیا ایسی صورت میں اس پر نماز جنازہ پڑھنے اور پڑھانے کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر 4 : کیا عید گاہ کے طور پر اس زمین کو استعمال کرنے والوں کی یہ دلیل شریعت کی رو سے صحیح ہے کہ نمازہ جنازہ فرض ہے اور نماز عید واجب ہے ،جب فرض اس شاملات زمین پر پڑھا جا سکتا ہے، تو وا جب بھی اس پر پڑھا جا سکتا ہے ،حالاں کہ نماز جنازہ پر ملکیتی دعوےداروں میں سے کسی  ایک فرد نےبھی اعتراض نہیں کیا ،مگر نماز ِعید یا عید گاہ کے طور استعمال پر پہلے سال سے ہی اعتراض ہوا ہے۔

جواب

"شاملات"دراصل ان غیر آباد زمینوں کو کہا جاتا ہےجو کسی گاؤں یا بستی کے قریب واقع ہوتی ہیں،عام طور پر ہمارے بلاد میں عرف اور رواج یہ چلا آرہا ہے کہ جب کوئی خاندان  کوئی گاؤں وغیرہ آباد کرتا ہے تووہ گاؤں کے قریب واقع غیر آباد زمینوں کے  ایک حصے کو گاؤں کی  مشترکہ ضروریات و حاجات کے پیشِ نظر  گاؤں سے منسلک کردیتا ہے،اور اس تمام ملحَقہ حصے کو گاؤں کی مشترک ملکیت سمجھا جاتا ہے،اسی مشترکہ ملکیت کو "شاملات "کہا جاتا ہے،عموماً جو زمین شاملات کا حصہ قرار دی جاتی ہے وہ گاؤں کی آباد شدہ زمینوں کا دوگنایا تین گنا ہوتی ہے۔

شاملات زمین کسی کی ذاتی اور انفرادی ملکیت نہیں ہوسکتی، نہ کسی کے لیے اس کا  انفرادی مالک بننا یا ملکیت کا دعوی کرناجائز ہے،بلکہ وہ گاؤں کے تمام باشندوں کی  اجتماعی اور مشترکہ ملکیت ہوتی ہے، اور وہ زمین ان کے اجتماعی کاموں ،مصالح اور گاؤں والوں کی مشترک ضرورتوں مثلاً   چراگاہ اور ایندھن  وغیرہ  کے حاصل کرنے کے لیے   استعمال کی جاتی ہے،اور اجتماعی مقاصد میں ہونے کی وجہ سے شاملات  زمین کو جہاں کھیل کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ،نمازِجنازہ ادا کی جاسکتی ہے،وہیں عید کی نماز بھی ادا کی جاسکتی ہے،البتہ اس زمین کو وقف عیدگاہ یا قبرستان  یا دیگر موقوفہ مقاصد کے لیے  اس وقت تک استعمال نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ تمام گاؤں کے بسنے والے افراد کی جانب سے صراحتاً فرداًفرداً اس زمین کو عیدگاہ یا قبرستان یا دیگر موقوفہ کاموں کے لیے وقف  کرنے کی اجازت نہ دے دی جاۓ۔

اب ہر سوال کاترتیب وار جواب ملاحظہ ہو:

1: واضح رہے کہ رسول اللہﷺ کی پوری حیاتِ طیبہ میں آپ علیہ السلام کا معمول یہ تھا کہ عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے شہر  اور آبادی سے باہر کسی کھلی جگہ اور عیدگاہ میں تشریف لے جایا کرتے تھے،البتہ صرف ایک سال بارش کی وجہ سے آپﷺ نے مسجدِ نبوی میں بھی عید  کی نماز پڑھائی ہے،اسی وجہ سے علماء نے  شہر اور آبادی سے باہر عید گاہ میں جاکر عید کی نماز پڑھنے کو سنت اور افضل عمل قرار دیا ہے،لیکن اگر شہر ،فناۓ شہر یا کسی  بڑی بستی میں بھی عید کی نماز ادا  کرلی جاۓ ،تب بھی درست ہے،اورعید کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے عیدگاہ یا مسجد کا ہونا  واجب اورضروری  نہیں ہے، البتہ جس علاقے میں کوئی میدان یا عیدگاہ نہ ہو، یا کثرتِ آبادی اور رش کی وجہ سے مسجد اور ملحقہ میدان سب بھر جائے یا اور کوئی معقول شرعی یا طبعی عذرہو تو اسے خلافِ سنت نہیں کہا جائے گا۔

2: چوں کہ  سوال میں ذکر کی گئی شاملات زمین  باقاعدہ اس علاقے کے تمام افراد کی مشترکہ مملوکہ زمین ہے،اور ان کی جانب سے فرداً فرداً اس زمین کو  وقف کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے ،اس لیے اس زمین کو شرعاً موقوفہ عید گاہ نہیں  بنایا جاسکتا،کیوں کہ عیدگاہ کے لیے اس جگہ کا وقف ہونا ضروری ہے،اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے،لہٰذا جب تک  زمین کےتمام مالکان (یعنی تمام گاؤں والوں )  کی جانب سے فرداً فرداً وقف کرنے کی اجازت نہیں دے دی جاتی  اور صراحتاً "وقف " کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا،اس وقت تک اس جگہ کو   شرعاًوقف عید گاہ کی حیثیت حاصل نہیں ہوگی ،نہ ہی   اس معاملے میں  خاموشی اختیار کرنا شرعاًاس جگہ کے وقف ہونے کی اجازت اور رضامندی کی علامت سمجھی جاۓ گی۔ 

نیز  مذکورہ زمین چوں کہ شاملا ت  زمین ہے،اس لیے  مذکورہ زمین گاؤں والوں کی مشترکہ ملکیت ہے، اور تمام گاؤں والوں کے مشترکہ مصالح اور مقاصد میں اس کو استعما ل کیا جاسکتا ہے،اور چوں کہ تمام مصالح اور مقاصد میں سب سے زیادہ مقدم عبادت ہے اس  لیے اس زمین میں عید کی نماز ادا کرنا بھی مشترکہ  مقاصد میں سےہے،بلکہ اہم مقصد ہے،لہٰذا اس زمین میں عید کی نماز پڑھنا جائز ہے، بعض لوگوں کا اعتراض غلط ہے اور اس میں اکثریت کا اتفاق کافی ہے،البتہ  اس زمین  کو وقف عید گاہ کی حیثیت  صرف اس وقت حاصل ہوگی کہ جب تمام لوگ فرداً  فرداً اس زمین کو وقف کرنے کی اجازت دے دیں ۔

3،4:نمازِ  جنازہ اور عید  کی نماز دونوں ہی مشترکہ مصالح میں شامل ہیں ،لہٰذا جس طرح  اس شاملات زمین میں بغیر اجازت نمازِ جنازہ پڑھنا درست ہے ،اسی طرح عید کی نماز کی ادائیگی بھی  بہر صورت جائز ہے،چاہے کوئی اعتراض کرے یا نہ کرے۔

الغرض خلاصۂ کلام یہ ہے کہ  مذکورہ شاملات زمین گاؤں میں بسنے والے تمام افردکی مساوی اور مشترکہ ملک ہے،جو ان کی تمام مشترکہ ضروریات میں استعمال کی جاسکتی ہے،چاہے وہاں سے   چارہ  اور ایندھن  حاصل  کیا جاۓ،یا وہاں نمازِ جنازہ پڑھی جاۓ یا وہاں ہر سال عید کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا جاۓ،یا اس کے علاوہ  دیگر مشترکہ مقاصد میں استعمال کیا جاۓ،البتہ اس جگہ کو وقف قرار دینے کے لیے ضروری ہوگا کہ تمام  باشندگانِ دیہہ فرداًفرداً اس زمین  کو وقف کرنے کی اجازت دے دیں،اس کے بغیر شرعاً وہ زمین موقوفہ نہیں کہلاۓ گی۔

بخاری شریف میں ہے:

"‌عن ‌‌أبي ‌سعيد الخدري قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى، فأول شيء يبدأ به الصلاة ...الخ."

(كتاب العيدين،باب الخروج إلى المصلى بغير منبر،131/1،ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ثم يتوجه إلى المصلى) ... وفي التجنيس والخروج إلى الجبانة سنة لصلاة العيد، وإن كان يسعهم المسجد الجامع عند عامة المشايخ هو الصحيح اهـ.

وفي المغرب الجبانة المصلى العام في الصحراء...حتى لو صلى العيد في الجامع، ولم يتوجه إلى المصلى ‌فقد ‌ترك ‌السنة."

(كتاب الصلاة،‌باب العيدين،الخروج إلى الجبانة يوم العيد،171/2،ط:دار الکتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ماشيا إلى الجبانة)وهي المصلى العام، والواجب مطلق التوجه (والخروج إليها) أي الجبانة لصلاة العيد (سنة وإن وسعهم المسجد الجامع) هو الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب العيدين،168،692/2،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(وركنه الألفاظ الخاصة ك) أرضي هذه (صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه) من الألفاظ كموقوفة لله تعالى أو على وجه الخير أو البر واكتفى أبو يوسف بلفظ موقوفة فقط قال الشهيد ونحن نفتي به للعرف.

  وفي الرد:(قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد."

‌‌(كتاب الوقف،340/4،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وقف المشاع المحتمل للقسمة لا يجوز عند محمد رحمه الله تعالى وبه أخذ مشايخ بخارى وعليه الفتوى كذا في السراجية."

(کتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز ، فصل في وقف المشاع، 365/2، ط:رشیدیة)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 1271) الأراضي القریبة من العمران تترک للأھالی مرعی ومحتصدا ومحتطبا ویقال لھا الأراضی المتروکة.

الأراضي القريبة من العمران أي الخارجة عن العمران أو القريبة منه تترك للأهالي على أن تتخذ مرعى أو بيدرا أو محتطبا ولا يعد انتفاع الأهالي منقطعا عن تلك الأراضي (الطوري). والمحلات التي يصل إليها صوت جهير الصوت عند صياحه من أقصى العمران تعد قريبة من العمران وحريما للعمران فلا تعد مواتا ولو لم يكن لها صاحب...  كما أن الأراضي الواقعة داخل العمران أي في داخل القصبة والقرية لا تعد مواتا وتدعى هذه الأراضي الأراضي المتروكة فلا يجوز إحياء هذه الأراضي ولا تمليكها لآخر لأنه إذا كان الناس يستعملونها في الحال فهم محتاجون إليها تحقيقا وإذا كانوا لا يستعملونها فهم محتاجون إليها تقديرا وهذه الأراضي هي كالطريق والنهر."

(الكتاب العاشر: الشركات،‌‌الباب الرابع في بيان شركة الإباحة،الفصل الخامس في إحياء الموات،المادة :279/3،1271،ط:دار الجیل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں